کالاباغ ڈیم ، وقت کی ضرورت....(2)

ڈیم کے مجوزہ ڈیزائن کے مطابق اسکی اونچائی تقریباً 80 میٹر، لمبائی 3350 میٹر جبکہ بجلی کی پیداوار 3600 سے 5200 سو میگاواٹ ہوتی، اسکا تخمینہ لاگت 1984 میں 5 ارب ڈالر تھا، جو اب بڑھ کر 20 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہو چکا ہے، ہر سال اس سے زیادہ نقصان پنجاب سندھ اور کے پی میں مون سون کی بارشوں سے ہوجاتا ہے، ایک اندازے کے مطابق 2010 کے سیلاب میں نقصان کا تخمینہ 43 ارب ڈالر تک تھا، مطلب اس نقصان کے آدھے میں ہم ڈیم بنا سکتے ہیں- اس ڈیم سے کے پی کے کی 7 لاکھ سے 10 لاکھ سے ایکڑ اراضی سیراب ہو گی، جبکہ سندھ کی 10 لاکھ سے 12 لاکھ ایکڑ اراضی اس سے سیراب ہو سکے گی۔یہ تو تھی تاریخ، افادیت اور جغرافیہ اب بات کرتے ہیں اعتراضات پر،. پختون قوم پرستوں کا اعتراض صرف ایک ہی ہے کہ اس سے نوشہرہ، صوابی ، پبی اور جہانگیرہ کا علاقہ ڈوب جائے گا، جس کے دلیل میں انکے پاس وہی ضیائ الحق کے دور میں مکانات پر لگائے گئے نشانات کا پروپیگنڈہ ہی ہے،. یہ جھوٹ اس شدت سے پھیلایا گیا ہے کہ کوئی دوسری بات سننے کو تیار نہیں، حقیقت یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم نوشہرہ سے 130 کلومیٹر دور ہے اور نشیب میں ہے،. اگر یہ ڈیم بھر بھی جائے تب بھی نوشہرہ اس سے 60 فٹ اونچائی پر ہو گا۔، ڈاکٹر شمس ملک جوکہ سابق چیئرمین واپڈا اور جی ایم تربیلا ڈیم رہے ہیں،. انہوں نے پختون قوم پرستوں کو کالا باغ ڈیم پر مناظرے کا چیلنج دے رکھا ہے، آج تک کسی ایک پختون قوم پرست نے چیلنج ایکسپٹ نہیں کیا-
سندھی قوم پرستوں کا پروپیگنڈہ بھی ملاحظہ کیجیے، عوام کو خوف دلایا گیا ہے کہ اگر ڈیم بن گیا تو سمندر میں گرنے والا پانی کم ہو جائے گا، اور سندھ کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور پانی پر پنجاب کی اجارہ داری قائم ہوجائے گی حالانکہ دریائے سندھ کا 90 فیصد پانی سمندر میں ضائع ہوتا ہے۔ سمندر میں گرنے والا پانی اگر پچاس فیصد کم بھی ہو جائے تو یہ عالمی معیار کے مطابق ہو گا اور کالاباغ ڈیم نے سارا پانی تو نہیں روک لینا، سمندر میں ایک معقول حد تک تو پانی بھر بھی گرتا رہے گا، ڈیم بن جانے پر گریٹر تھل کا دائرہ کار وسیع کر کے اسے سندھ کو سیراب کیا جا سکے گا- 
سندھ قوم پرستوں کا ایک اور اعتراض بھی ہے، کہ ڈیم پر جو بجلی پیدا ہوگئی اس سے پانی کی طاقت کم ہو جائے گی اور پانی میں موجود طاقتور ایلیمنٹ نکل جائیں گے اور یہی پانی سندھ تک پہنچے گا اور اس پانی سے فصلیں پیدا نہیں ہوسکتیں ، لو کر لو گل جہاں بھٹو آج تک زندہ ہو وہاں ایسی ہی دلیلیں وجود میں آتی ہیں۔ایک بات اور کالاباغ ڈیم کے لئے اسلام 
آباد کے بڑے بڑے ائیرکنڈیشنڈ دفاتر کی بجائے کالاباغ ڈیم سائیٹ پر سیمینارز منعقد کئے جائیں میڈیا چینلز نیاز سٹوڈیو کے بجائے اسی سائیٹ پر مہمانوں کو بلاکر ڈیبیٹ کرے وہاں سے لائیو نشریات کرے، کے پی کے اور سندھ صوبوں کے پڑھے لکھے طبقہ کو جن میں وکلاء، ڈاکٹر، انجنیئر، پروفیسرز کو بلائے ان سے سوال و جواب کرے میں یقین سے کہتا ہوں کہ صورتحال لوگوں کے سامنے آئے گی تو لوگ سمجھیں گے۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن