مہاراجہ بیتی

اتنی پرانی بات ہو گئی ہے کہ 1965ء کی جنگ کے وقت موجود پاکستانیوں کی بہت کم تعداد باقی رہ گئی، تقریباً تمام کے تمام اللہ کو پیارے ہو چکے اور اس وقت آبادی تھی بھی کتنی۔ موجودہ پاکستان میں تب کل پانچ کروڑ کے قریب لوگ آباد تھے، اب یہ گنتی 23 کروڑ سے بھی اوپر ہے۔ 
اس جنگ میں بھارت دو میں سے ایک ہدف تو ہر صورت پورا کرنا چاہتا تھا اور دونوں ہی پورے ہو جاتے تو بھگوان کی کرپا کی کیا ہی بات تھی۔ ایک یہ کہ لاہور پر قبضہ کر لیا جائے دوسرے سیالکوٹ کی طرف سے آگے بڑھ کر جی ٹی روڈ کو کاٹ دیا جائے۔ 
وہ دونوں میں سے ایک بھی ہدف حاصل نہ کر سکا۔ بھگوان نے کرپا کرنے سے ’’اسو بکار‘‘ کر دیا۔ لیکن لاہور میں تو بھارت کے ساتھ ’’پرینک‘‘ ہو گیا۔ اس کے پاس اطلاع تھی اور اطلاع بھی صحیح تھی کہ لاہور کے محاذ پر دفاع کرنے کے لیے پاکستان کی بہت ہی کم تعداد موجود ہے۔ ایوب خاں کی حکمت عملی اتنے برس گزرنے کے بعد بھی کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکی کہ لاہور کو اس نے دفاعی خانے سے باہر کیوں کر دیا تھا۔ بہرحال اسی اطلاع پر بھارتی جنرل نے اعلان کیا کہ وہ آج لاہور پر حملہ کرے گا، آج ہی اس پر قبضہ کرے گا اور آج ہی لاہور کے جم خانے میں دارو لڑھکائے گا۔ 
لیکن کچھ بہت ہی انوکھا ماجرا یہ ہوا کہ ان بہت ہی کم فوجی جوانوں نے ایسا ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ بھارت کی پیش قدمی روک دی جو آخری دن تک رکی رہی۔ جب پیش قدمی رک گئی تو بھارت نے دراصل خود ہی مزید آگے بڑھنے کا ارادہ اس لئے ترک کر دیا تھا کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ یہاں تو پاکستان نے بہت زیادہ فوج لگا رکھی ہے، آگے بڑھے تو جانے ہمارا کیا حشر ہو۔ 
بھارت کا یہ ’’اندیشہ‘‘ مٹھی بھر جوانوں کی ناقابل یقین جنگ جوئی کی وجہ سے تھا۔ وہ تو اسے جنگ کے خاتمے کے بعد پتہ چلا کہ پاکستان نے کوئی بہت بڑا لشکر نہیں لگا رکھا تھا، تھوڑے سے جوان تھے جو بھاری پڑ گئے۔ 
آج /7 ستمبر ہے، یوم فضائیہ۔ اس جنگ میں پاکستان کی مقابلتاً چھوٹی فضائیہ (ایک بمقابلہ 4 ) نے برابر کی ٹکر دی۔ ایم ایم عالم نے چند منٹ میں 5 بھارتی طیارے گرا کر ایک تاریخ بنائی۔ بہت سی باتیں اس جنگ کی یاد رہیں گی۔ قابلِ فخر باتیں لیکن یحییٰ خاں نے 1971ء میں سب ڈبو دیں۔ 
____________
ضمانت قبل از گرفتاری کا ترجمہ رہائی قبل از گرفتاری بھی کیا جا سکتا ہے۔ بالکل ایسے ہی ایک اور اصطلاح بھی اب بنائی جا سکتی ہے بلکہ بن گئی ہے اور وہ ہے گرفتاری قبل از رہائی۔ 
پنجاب کے معزول ’’مہاراجہ‘‘ کے باب میں یہی ہو رہا ہے۔ انہیں چھ بار رہا کیا جا چکا ہے لیکن چھ کے چھ بار وہ رہا ہونے سے پہلے ہی پھر سے گرفتار کر لئے گئے۔ 
بہرحال، معزول مہاراجہ کل دنیا میں وہ دوسری برگزیدہ ہستی ہیں جن کو یہ خصوصی رعایت حاصل ہوئی کہ ’’انہیں کسی بھی نئے ، پرانے ، موجود غیر موجود، پسماندہ یا آئندہ مقدمے میں گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی رہائی کے بعد وہ بے دھڑک کسی جرم کے مرتکب ہو جائیں تب بھی کوئی پکڑنے کی جرات نہ کرے ورنہ توہین والی دفعہ لگ جائے گی۔ 
یہ سہولت ان سے پہلے کل عالم میں صرف ایک برگزیدہ ہستی ، زمان پارک کے سلطان، پرنس آف بنی گالہ کو دی گئی تھی۔ ماحولیاتی بدلائو کا شاخسانہ البتہ یہ رہا کہ یہ سہولت نہ بزرگ اوّل کے کسی کام آ سکی نہ بزرگ دوئم یعنی معزول مہاراجہ کے۔ معزول مہاراجہ کو سلطان آف زمان پارک پر ایک سبقت البتہ رہی کہ ایک سنگین کرپشن کا مقدمہ ان پر بنا، منصف تک پہنچا اور اس نے بنا سماعت کئے معزول مہاراجہ کو باعزت بری کر کے مقدمہ فنا فی السفر کر دیا۔ یہ سہولت دنیا بھر کی تاریخ میں ابھی تک صرف مہاراجہ کو ملی، سلطان معظم اس سے محروم رہے۔ 
____________
اطلاع ہے اور پکّی اطلاع ہے کہ ہر گرفتاری کے بعد معزول مہاراجہ ایک ہی فقرے کی تکرار کرتے پائے گئے کہ میرے نال گل تاں کرو، آخر چاہندے کی او۔ یعنی مجھ سے بات کرو، بتائو تو سہی مجھ سے مطالبہ کیا ہے۔ 
ان کے اس سوال کا جواب کسی نے نہیں دیا لیکن ’’عْمّال‘‘ کی زبان حال پکار پکار کر یہی کہتی ہے کہ جب بات کرنے کا وقت تھا، تم نے انکار کیا، ا ب وقت نکل گیا تو ہم بات کیوں کریں۔ 
78 سالہ معزول مہاراجہ پر کڑا وقت یوں بھی ہے کہ ان کا واحد ’’راجکمار‘‘ سپین کو اپنا وطن بنا چکا ہے۔ وہاں اس نے نیا ’’الحمرا‘‘ تعمیر کر لیا ہے جہاں ماکولات و مشروبات و مفرحات قلبی و فردوسیاتِ بصری کی وہ کثرت ہے کہ باپ کی یاد آنے کی مہلت ہے نہ گنجائش۔ 
____________
مہاراجہ کو تخت نشین ہونے کا شاندار موقع ملا تھا۔ پی ڈی ایم انہیں وزیر اعلیٰ بنانے پر رضامند ہو گئی، معاہدہ بھی ہو گیا لیکن مہاراجہ صاحب کو کیا سوجھی کہ معاہدہ توڑ دیا۔ 
نہ توڑتے تو سال بھر مزے سے راج پاٹ چلاتے، پھر نگراں حکومت میں بھی ان کا ’’بڑا‘‘ حصہ ہوتا، وہ سابق ہو کر بھی حاضر سروس رہتے لیکن انہوں نے الٹ چال چلی اور اپنے نصیبے کا ڈھابا بھی الٹ دیا۔ وزارت اعلیٰ پنجاب کا الیکشن وہ ہار گئے لیکن سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور ایک مختصر حکم نامے کے ذریعے انہیں وزیر اعلیٰ بنا دیا، چند دن کے لیے کیونکہ پھر اسمبلی انہوں نے کسی کی اس یقین دہانی پر توڑ ڈالی کہ ہم ان کا پیٹ پھاڑ کر الیکشن کی تاریخ لے کر دیں گے اور پھر آپ کو جتوائیں گے بھی…
اس کے بعد کی داستان محض عبرت کی کہانی ہے اور ابھی اس کہانی کے شروع کے ’’پتے‘‘ چل رہے ہیں۔ 
____________
حال ہی میں ہونے والی کچھ اہم ملاقاتوں میں اہم ترین خطاب ہوا اور بات چیت بھی۔ اہم ترین منصب دار نے دوران گفتگو انکشاف کیا کہ عمران خان نے سرکاری فنڈز سے 90 ارب روپے سوشل میڈیا والوں پر نچھاور کر ڈالے تاکہ وہ ان کی شان بڑھائیں اور مخالفوں کی شان میں ناگفتنی کی حد تک گستاخی کریں۔ 
/90 ارب روپے بہت بڑی رقم ہے۔ اتنی بڑی رقم لٹا دی، حاصل پھر بھی کچھ نہ ہوا۔ اب اٹک جیل کی کوٹھڑی میں خان صاحب یہ حساب لگا رہے ہوں گے کہ /90 ارب روپے سے کتنے ہزار دیسی بکرے، کتنے لاکھ دیسی مرغے اور کتنے ہزار بیرل دیسی گھی کے آ سکتے تھے۔
وہی بات کہ جو کھا لیا، وہ ٹھیک، جو اڑا دیا، وہ غلط اور بے کار معلوم ہوا کہ جیل جانے سے پہلے پچھتانا جیل جا کر پچھتانے سے بہتر ہوتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...