اسلام مخالف عالمی طاقتوں کی ساری توجہ، ہدف اور نشانہ پاکستان ہے۔ جتنے بھی اسلام مخالف ہیں وہ بھارت کو سامنے رکھ کر پاکستان کیخلاف کام کر رہے ہیں ان سب کی نظریں پاکستان کو اخلاقی، معاشی، سیاسی اور سماجی اعتبار سے کمزور کرنا ہے۔ کبھی جنگ میں دھکیلا جاتا ہے، کبھی گرے لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے، کبھی دہشتگردی کے نام پر متنازع بنایا جاتا ہے، کبھی عالمی اداروں کے ذریعے دباؤ میں لایا جاتا ہے۔ ہر وہ کام ہوتا ہے جس کے ذریعے پاکستان کو دباؤ میں لایا جاتا ہے اور ان ساری سازشوں میں نریندرا مودی کا چہرہ ہے۔ سب پاکستان مخالف اکٹھے ہیں اور بھارت کے ذریعے ناصرف پاکستان بلکہ خطے میں اپنے پاور پلیئر کے ذریعے علاقائی سیاست کو بھی کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال یہ بات تو سازشوں کی ہے جس میں سب سے آگے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی ہیں
نریندر مودی کا بڑا مقصد ہندوتوا کا فروغ اور ہر وقت پاکستان کے خلاف کام کرنا ہے۔ توسیع پسندانہ کی سوچ کے ساتھ وہ ایک خاص مقصد کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کا ہدف خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنا اور تمام اسلام مخالف طاقتوں کو پاکستان کیخلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے۔ دنیا کے بڑے ممالک اس ہدف میں اس کے پیچھے ہیں تو بھارت کو مدد بھی ملتی ہے۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم ایک طرف ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ وہ مخصوص ذہنیت کے حامل افراد کے لیے سہولتیں بھی پیدا کر رہے ہیں۔ بعض حلقے سمجھتے ہیں کہ نریندرا مودی کی حکمت عملی کو سمجھنا ذرا مشکل ہے حالانکہ اس میں کوئی مشکل بات نہیں بلکہ سب کچھ سب کے سامنے ہے۔ اسلام مخالف طاقتیں پاکستان کے خلاف جمع ہیں اور بھارت کے موجودہ وزیراعظم ان کے لیے سہولت کاری کر رہے ہیں۔ پہلے اس نے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو خراب کیا پھر ویتنام کے ساتھ اتحاد بنایا پھر چین کے خلاف بھی کام شروع کیا اس مہم میں اسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ ویتنام اور چین کے درمیان بیرون ملک تیل نکالنے پر طویل عرصے سے جاری تنازعہ نے ہندوستان کو فائدہ پہنچایا ہے۔ ہندوستان کی حمایت سے، ویتنام نے چین کے جنوبی سمندروں میں تیل کی پیداوار پر کام کرنا شروع کیا۔ ویتنام اب اپنا سارا تیل بھارت کو فراہم کرتا ہے۔ اس سارے گٹھ جوڑ میں امریکہ بھارت کا ساتھ دیتا ہے اور پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ امریکہ نے کسی اور کی جنگ میں پاکستان کا ناقابل تلافی نقصان کیا اور اس کے بعد ایسے حالات پیدا کیے کہ امریکہ نے کسی بھی براہ راست جنگ کے بغیر پاکستان کو ایک غریب ملک بنا دیا۔ اس نے ایران کی بندرگاہ کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ اس نے افغانستان کے ساتھ سرحد پر ایک ہندوستانی فوجی اڈہ قائم کیا ہے، جو پاکستان کو تقسیم کرنے والے علاقے کے بالکل قریب ہے۔ ہندوستانی تجارت بڑھانے کے لیے اس نے ایران کے راستے افغانستان جانے کا راستہ بھی بنایا ہے۔ نریندرا مودی کی خواہشات ایک ایک کر کے بڑھ رہی ہیں۔ دفعہ 370 اور 35A کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اب وہ امریکہ کو ساتھ ملا کر مقبوضہ کشمیر پر مکمل قبضے کا پلان بنائے ہوئے ہیں۔
ہے۔ بھارت اور عالمی طاقتوں کا گٹھ جوڑ پاکستان کو اصل جنگ سے زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔ دنیا ابھی پاکستان کی مخالفت میں نریندرا مودی کا ساتھ دے رہی ہے لیکن یاد رکھیں خطے میں طاقت کا توازن بگڑنے کا خطرہ بڑھا تو عالمی امن بھی خطرے میں ہو گا۔ پاکستان میں بدامنی ہوتی ہے تو اس سے ساری دنیا میں بدامنی کا خطرہ ہو گا۔ دنیا آج بھی روس اور افغانستان کی جنگ کے نقصان برداشت کر رہی ہے۔ افغانستان کے شہری آج بھی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ دنیا کو اس جنگ کے نتیجے دہشتگردی کے شدید خطرات کا سامنا ہے۔
ان حالات میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہماری سیاسی قیادت نے ان سازشوں کا توڑ کرنے کے لیے بہتر حکمت عملی ترتیب دی ہے، کیا ہماری سیاسی قیادت ایسی وسیع سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، کیا ہماری سیاسی قیادت کو ادراک ہے کہ پاکستان کو کن خطرات کا سامنا ہے اور دنیا پاکستان کے حوالے سے کس منصوبہ بندی کے تحت کام کر رہی ہے ۔ اس وقت بھارت کی اصل دشمنی پاکستان کے ساتھ ہے اور عالمی طاقتوں کا نشانہ بھی پاکستان ہے۔ بالخصوص گذشتہ پندرہ برس کے دوران سیاسی قیادت نے جس غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کیا ہے آج ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ دشمن اکٹھے ہو چکے ہیں اور ہمارے سیاست دان ہی ملک و قوم کے بہتر مستقبل کی خاطر اکٹھے نہیں ہو رہے، دشمن ہمیں ہر حال میں دبانا چاہتا ہے اور ہماری سیاسی قیادت نہ تو خود متحد ہوتی ہے نہ ہی اپنے لوگوں کے اتحاد پر کام کرتی ہے۔ آج قوم میں پائی جانے والی تقسیم خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے۔ کسی کو راستہ نظر نہیں آ رہا یا یہ کہا جائے کہ راستہ تو ہے لیکن اس راستے پر کوئی چلنا نہیں چاہتا۔ موجودہ حالات میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ جتنی سازشیں ہو رہی ہیں اور جس شدت کے ساتھ پاکستان میں سیاسی، معاشی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں شاید ان سازشوں کا مقابلہ صرف اور صرف پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہی کر سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اس حوالے سے کیا پیشرفت ہوتی ہے۔ اس کا فیصلہ عوام نے بھی کرنا ہے۔ آخر کب تک ہم اپنے پیارے وطن کو ناکام لوگوں کے حوالے کرتے رہیں گے۔
آخر میں احمد ندیم قاسمی کا کلام
چاند اْس رات بھی نکلا تھا، مگر اْس کا وجوْد
اِتنا خوْں رنگ تھا، جیسے کسی معصوْم کی لاش
تارے اْس رات بھی چمکے تھے، مگر اِس ڈھب سے
جیسے کٹ جائے کوئی جسمِ حَسیں، قاش بہ قاش
اِتنی بے چین تھی اْس رات، مہک پھْولوں کی
جیسے ماں، جس کو ھو کھوئے ھوْئے بچّے کی تلاش
پیڑ چیخ اْٹھتے تھے امواجِ ھوا کی زَد میں
نوکِ شمشیر کی مانند تھی جھونکوں کی تراش
اِتنے بیدار زمانے میں یہ سازش بھری رات
میری تاریخ کے سینے پہ اْتر آئی تھی
اپنی سنگینوں میں اْس رات کی سفّاک سِپاہ
دْودھ پیتے ھوْئے بچّوں کو پرو لائی تھی
گھر کے آنگن میں رواں خوْن تھا گھر والوں کا
اورہر کھیت پہ شعلوں کی گھٹا چھائی تھی
راستے بند تھے لاشوں سے پَٹی گلیوں میں
بِھیڑ سی بِھیڑ تھی، تنہائی سی تنہائی تھی
تب کراں تا بہ کراں صْبح کی آہٹ گوْنجی
آفتاب ایک دھماکے سے اْفق پر آیا
اب نہ وہ رات کی ہیبت تھی، نہ ظْلمت کا وہ ظْلم
پرچمِ نوْر یہاں اور وھاں لہرایا
جِتنی کِرنیں بھی اندھیرے میں اْتر کر اْبھرِیں
نوک پر رات کا دامانِ دریدہ پایا
میری تاریخ کا وہ بابِ منوّرہے یہ دِن
جِس نے اِس قوم کو خوْد اْس کا پتہ بتلایا
آخری بار اندھیرے کے پْجاری سْن لیں
میں سَحر ھوْں، میں اْجالا ھوْں، حقیقت ھوْں میں
میں محبّت کا تو دیتا ھوْں محبّت سے جواب
لیکن اعدا کے لیے قہر و قیامت ھوْں میں
امن میں موجہء نکہت مِرا کِردار سہی
جنگ کے دَور میں غیرت ھوْں، حمیّت ھوْں میں
میرا دْشمن مْجھے للکار کے جائے گا کہاں
خاک کا طیش ھوْں، افلاک کی دہشت ھوْں میں