بلوچستان کے پیچھے زہریلا پروپیگنڈا شروع

اج ذوالفقار احمد چیمہ صاحب کی یہ چشم کشا تحریر پڑھی تو ایسا لگا جیسے یہ میرے دل کی بات کہی ہو کیونکہ اس وقت پوری دنیا کی اور خاص کر امریکہ کی نظریں گوادر میں بڑے پیمانے پر تجارتی مراکز میں ہونے والی سرگرمیوں پر مرکوز ہیں اور ہمسایہ ممالک سمیت امریکہ چین کے خاموش قدموں کو گوادر میں برداشت نہیں کر سکتا .

ذرا سوچئیے اج سے چالیس سال پہلے جب اس طرف روس کے تیز قدم اٹھے تو یہی غیار و چالاک امریکہ نے افغانستان کوکھنڈرات میں تبدیل کر کے وہ اٹھتے دوڑتے قدم کاٹ کے رکھ دئیے .اس دفعہ وہ چین کے خلاف مختلف اقدام کر کے اسے یہاں ارام سے پہنچنے کے بعد اپنی خطرناک کاروائیوں میں اضافہ کر چکا ہے اور اس کے لئے وہ معصوم بلوچوں کو مختلف زہریلی پروپیگنڈوں اور ایجنٹوں کو ملا کر اس اگ کو شعلوں میں بدل رہا ہے .
ذرا سوچئیے کہ چالاک غیار دشمن کس طرح سے پنجاب کے نفرت کو اپنا ہتھیار بنا کر اس ملک میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ بلوچستان کو سب سے زیادہ فنڈز و قربانی پنجابی وزیر اعظم نواز شریف نے دی ہیں .بلوچ سردار اکبر بگٹی کے قتل کو پنجاب کے سر تھوپنے کے لئے ان کی برسی پر غریب پنجابیوں کو ذبح کیا گیا حالانکہ جس وقت بگٹی کو اپریشن کے ذریعے قتل کیا گیا اس وقت مشرف اقتدار کی کرسی پر براجمان تھے جو سندھ اور کراچی سے تعلق رکھتے تھے اور خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے گورنر اویس غنی تھے.بلوچستان میں جب حالیہ واقعات ہوئے تو سب دلگیر تھے اور بہت اداس تھے کہ یہ اچانک بلوچستان میں کیا ہو گیا ہے اور یہ کیا افراتفری شروع ہو گء ہے تو میں نے کہا کہ جس روس کو روکنے کے لئے امریکہ نے افغانستان میں خون کی ندیاں بہاء ہیں وہ بلوچستان میں چین کی امد پر اخری حدوں کو چھو کر گوادر کو اگ اور خون کی دریا بہائے گا لیکن ہمیں ہوش سے کام لینا چاہیے اور دشمن کے چال کو سمجھ کر اگے قدم اٹھانا چاہیے .
بلوچستان میں اس وقت دشمن متحرک ہے اور سوشل میڈیا پر دشمن کے پیڈ اہلکاران ان کے لئے بھرپور زہریلا پروپیگنڈا کر رہے ہیں اور بلوچ قوم کے نوجوانوں کو ورغلانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں لیکن حکومت کو ایسے بلوچ رہنماوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہیے جو ملک و قانون کو مانتے ہیں جو ملک سے محبت کرتے ہیں اور اس ملک کی بھلاء چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے ینگ سیاستدان حق دو  تحریک کے بانی ہدایت اللہ جو گوادر سے تعلق رکھتے ہیں ان کو اختر مینگل کو اور بلوچستان کے پختون رہنماوں اچکزء جمعیت علماء کے مشران کو بھی اپنے ساتھ ملانا چاہیے تاکہ دشمن کے پروپیگنڈے کو روک کر ملک  بچانے اور بلوچ نوجوانوں کو اگ کے جلتیدریا سے بچایا جائے.
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بلوچستان میں صرف بلوچ نہیں ہیں بلکہ ادھے سے تھوڑے کم پختون بھی اس دھرتی پر اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور زیادہ تر وہاں امن و امان ہے اور وہاں دشمن کے زہریلے پروپیگنڈے سے یہ علاقے بلکل پاک  ہیں.اس وقت پالیسیوں میں تبدیلی کر کے بلوچ قوم پرستوں کو اور عام بلوچ عوام کو اپنے وطن سے محبت کا درس دینا چاہیے اور وہاں پر مسنگ پرسنز کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل کرنا چاہیے اور الیکشن میں اور صوباء حکومت بنانے میں اسثیبلشمنٹ کو گریز کرنا چاہیے .
پاکستان ہمارا پیار ملک ہے اور بلوچستان اس کا دل ہے اور اگر بلوچستان میں معدنیات ہیں گوادر ہے اور قدرت نے اسے وسیع رقبہ سے نوازا ہے تو اسی طرح پنجاب کی فصلیں سندھ کے ذخائر اور پختونخواہ کے دریا چشمے اور پہاڑ بھی مختلف خزانوں سے بھرے ہیں لیکن دشمن صرف بلوچ قوم کو ورغلانے کے لئے صرف ان کے ہاں پیدا ہونے والے معدمیات کا زہریلا پروپیگنڈا کر کے اپنی دکان چلانے اور ہر طرف اگ لگانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے .
بلوچستان کے بلوچ نوجوانوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ اس خطہ کی قسمت بدلنے والا سب سے بڑا منصوبہ گوادر پورٹ کا تحفہ بھی اس صوبہ کو دینے والا پنجاب کا تعلیم یافتہ وزیر اعظم فیروز خان نون تھا جس نے بڑی کوششوں کے بعد یہ اہم ترین اور گیم چینجر جگہ سلطان مسقط سے لے کر اس ملک و صوبہ پر خاص احسان کیا .
غیر ممالک کے پروپیگنڈے سے جب ہم نکلیں گے تو ہمیں پتہ چل جائے گا کہ بلوچستان پورے ملک کی گیس کی کل ضروریات کا صرف 9 فیصد فراہم کر رہا ہے جس میں 6 فیصد بھی اسی صوبہ میں استعمال ہوتی ہے جبکہ باقی تین فیصد دوسرے صوبوں کو سپلاء ہوتی ہے .اسی طرح اگر دیکھا جائے تو 91 فیصد گیس اس صوبہںسے باہر پیدا ہوتی ہے لیکن بات کو بڑھانے والوں نے ایسی تصویر کھینچی ہے کہ جیسے پورے ملک کے گیس کی ضروریات صرف سوء کے مقام ڈیرہ بگٹی سے پوری ہو رہیہے اور دشمن کا اصل ہتھیار یہی ہوتا ہے کہ حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا جائے اور اج کل یہی بلوچستان میں ہو رہا ہے .
کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ ترقی اس صوبہ کو گورنر رحیم الدین جنرل کے دور میں دی گء جب وہاں کرپشن اقربہ پروری کے سارے راستے بند کر کے عام عوام تک حکومت کے منصوبے و امداد اور پراجیکٹ پہنچ گئے .اگر اس طرح چلتا اور عام عوام سرداروں کے چنگل سے ازاد ہوتے تو بلوچستان ترقی کی راہ پر چل پڑتا اور یہاں دودھ و شہد کی نہریں بہتیں لیکن طاقتور سرداروں نے غریب عوام کو یرغمال بنایا ہے اور ان غریبوں کی اواز سردار کی بڑی پگڑی اور طاقتور قدموں کے نیچے دب جاتی ہے اسی ئے سارے بڑے سردار ایچی سن اور اکسفورڈ سے پڑھے ہیں جبکہ عام بلوچ کے پاس سرکاری پرائمری سکول بھی نہیں ہے .
کمیں ایسے لوگوں ایسے گروپوں اور ایسے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں پر نظر رکھنی چاہیے جو اس اگ پر اپنے لفظوں کے ذریعے پٹرول چھڑک کر شیطانی قہقہے لگا رہے ہیں.
ایسے عناصر سے بچنا چاہیے اور ان کے خلاف اپنی اواز بلند کرنی چاہیے .

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...