سات ستمبر عشق رسول کا مظہر یوم سعید

 حضرت اقبال اور پیر مہر علی شاہ  کے حب رسول سے مرقع اظہار مروت و موودت عقیدے کو فرحت اور تازگی بخشتے ہیں۔ یہ وہ شاہ پارے ہیں جنہیں طغرے بنا کر اہل عشق گھروں‘ ڈیروں ‘ خانقاہوں حتی کہ عبادت گاہوں کی زنیت بناتے ہیں
جواب شکوہ کا آخری شعر میں شاعر مشرق  نے اعزازوکامرانی کا نسخہ بتا دیا
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
 یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
پیر مہر علی شاہ فرماتے ہیں
کھتے مہر علی کھتے تیری ثناء
ایہ گستاخ اکھاں کھتے جااڑیاں
 7 ستمبر عدیم المثال لمحات لئے وہ تاریخ ساز دن ہے جس روز قومی اسمبلی نے متفقہ طورپر آئین سازی کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر اقلیتوں میں شامل کر دیا۔آئین پاکستان کے تحت قادیانی اب اسلامی اشعار کو استعمال نہیں کرسکتے نہ ہی یہ اپنے عبادت خانوں کو مسجد کہہ کر دوسروں کو دھوکہ دے سکتے ہیں۔ قوم مبارک باد پیش کرتی ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو‘ ان کی کابینہ کے اراکین ،اس وقت کے جید علماء  اکرام اور سیاست دانوں کو جنہوں نے یہ اہم ترین فریضہ ادا کرنے میں شبانہ روز کوششیں کیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ قافلہ عشق کے سوار مولانا شاہ احمد نورانی کو قانون سازی سے روکنے کیلئے بھاری رشوت کے شیشے میں اتارنے کی سازش کی گی مگر وہ مرد جری پورا کا پورا حب رسول سے معمور تھا۔مسلمانان عالم اس بات سے باخبر ہیں کہ قادیانی مسلمانی کا روپ دھار کر اسلام میں نقب اور صاحب اسلام کی عظمت وتوقیر سے متصادم خیالات رکھتے ہیں لہذا بھاری پتھر سے ان زہریلے سانپوں کا سرکچلنا ضروری تھا 7 ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی نے متفقہ طورپر اس فتنہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زیر کر دیا اب آئین پاکستان کے مطابق قادیانی غیر مسلم اقلیت ہیں۔ اس موقع پر ہم معروف محقق جناب سید سعود ساحر کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے کتاب (تحریک ختم نبوت آغاز سے کامیابی تک) تالیف کرکے تاریخ رقم کی۔ کتاب کے ایک زریں باب کا ایک منظر ملاحظہ فرمائیں
7 ستمبر کو وہ روشن اور چمکیلی صبح نمودار ہوئی جس کی آس میں ایک صدر امت مسلمہ نے کرب واضطراب کے اندھیروں میں گزاری تھی۔ عقیدہ ختم نبوت پر غیر متزلزل ایمان رکھنے والوں نے اپنے آقا ومولا کی عظمت وحرمت کی خاطر جانیں نچھاور کی تھیں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ جسم پر زخم کھائے تھے یقیناً جسم کے یہ داغ حشر کے میدان میں سورج کی مانند چمکیں گے اور 7 ستمبر 1974ء کو ساڑھے چار بجے قادیانیوں اور مرزا کو ماننے والے لاہوری گروپ کو غیر مسلم قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر کے دوران ایوان ’’ختم نبوت زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا ایوان میں موجود علمائے کرام اور دوسرے ارکان بغلگیر ہوئے حتی کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے سیاسی حریف ولی خان بھی اپنی نشستوں سے اٹھ کر گرم جوشی سے ملے۔یہ 83ء کا واقعہ ہے جنوبی افریقہ میں قادیانیوں کے بارے میں مقدمہ زیر سماعت تھا رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل نے جنرل ضیاء  الحق سے علماء اہل علم اور ماہرین قانون کا وفد جنوبی افریقہ بھیجنے کی درخواست کی۔ جس پر جنرل ضیاء الحق نے مولانا مفتی تقی عثمانی‘ جسٹس ر افضل چیمہ‘ نامور قانون دان اور سعودی سفارت خانے کے مشیر سید ریاض الحسن گیلانی‘ مفتی زین العابدین اور ایک عالم بے بدل ڈاکٹر محمود احمد غازی کو جنوبی افریقہ بھیجا۔ اس وفد میں تحریک ختم نبوت کی نمائندگی مولانا منظور چنیوٹی‘ ڈاکٹر خالد محمود اور ڈائریکٹر ختم نبوت اکیڈمی لندن محترم عبدالرحمن یعقوب باوا کررہے تھے۔ جنرل ضیاء  الحق کی ہدایت پر اسمبلی میں قادیانیوں کے دونوں گروہوں پر ہونے والی جرح کی مصدقہ نقل موتمر عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل افضل چیمہ کے حوالے کی گئی بعدازاں جنوبی افریقہ کی عدالت عظمی کے فل بینچ کا فیصلہ سامنے آیا۔ غیر مسلم ججوں نے قادیانیوں کے موقف کو یکسر مسترد کر دیا اور اپنے فیصلے میں لکھا کہ قادیانیوں کے بارے میں وہی موقف معتبر ہے جو مسلمانوں کے مستند علماء اختیار کریں۔ کسی مذہب کے عقائد کے بارے میں اس مذہب کے علماء  اور ماہرین ہی فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں اس لیے کہ وہی اس عقیدے کے محافظ اور امین ہیں۔قادیانی مسئلے کے حتمی فیصلے تک پہنچنے کے لیے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کو دو ماہ کا عرصہ لگا جس کے 28 اجلاس اور 96 نشستیں ہوئیں۔ اس سلسلے میں ارکان کمیٹی کو ’’ملت اسلامیہ کا موقف‘‘ نامی کتاب دی گیء جبکہ قادیانیوں اور لاہوری گروپ نے بھی اپنے عقائد پر مشتمل کتابیں ارکان اسمبلی میں تقسیم کیں۔ قادیانیوں کے لاہوری گروپ کے سربراہ صدر الدین کے پاس نہ کہنے کے لیے کچھ زیادہ تھا نہ اس پر طویل جرح کی ضرورت تھی۔ قادیانیوں کی لاہوری شاخ مرزا غلام احمد کے مکروفریب پر ناگوار تاویلات کا پردہ ڈالنے کے ہنر کے سوا انہی عقائد کی حامل ہے جو اسے دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یوں صدر الدین کو محض 7 گھنٹے میں فارغ کردیا گیا۔کہتے ہیں کہ نجس چیز کالی ہو کہ چٹی‘ حرام ہی ہوتی ہے۔ البتہ مرزا ناصر احمد پر گیارہ ایام میں 42 گھنٹے طویل جرح کی گئی۔قومی اسمبلی کے معزز اور باوقار ارکان اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مرزا ناصر کو سوالات میں بیان کی گئی سچائیوں کی تاب لانے کی ہمت نہ تھی۔ بار بار گلا خشک ہوتا‘ پانی کی حاجت ظاہرکرتا‘ نامکمل جوابات اور ہر سوال کے جواب کو التوا میں ڈال کر اگلے دن تحریر کی صورت میں جواب دینے کے لیے مہلت کی التجا کرتا حتی کہ اپنی تاریخ پیدائش درست بتانے میں بھی گومگو کا شکار تھا۔

ای پیپر دی نیشن