اماں کے گھر روزانہ دوپہر کے دو اور رات کے نو بجے ابا کی آواز آیا کرتی تھی ۔۔۔بیٹا ا کھانے کا ٹائم ہو گیا ہے سب ڈائننگ ٹیبل کے گرد پہنچ جائو پانچ منٹ میں ۔۔۔ پھر چاہے ہم نے کالج میں برگر اڑایا ہو یا رات کو دوستوں کے ساتھ تکوں کا پلان ہو ۔۔۔ اماں ابا کی ٹیبل پر پیالے میں موجود ٹنڈے گوشت اور اماں کے ہاتھ کی گھر میں پکی بے حد نرم اور hygienic روٹیوں کو مصنوعی پرٹوکول کے ساتھ پلیٹ میں ڈالنا ہی پڑتا تھا لیکن پیٹ چیخ چیخ کر کہتا تھا کہ رک جائو ، تکوں کے لئے جگہ خالی چھوڑنا۔۔۔ اباکی بات کہ ۔۔۔ کھانا سب نے اکھٹے کھانا ہے ۔۔۔ کی روائت سے کئی مرتبہ ہمارے پیٹ نے بغاوت کرنے کی کوشش کی لیکن کبھی کامیاب نہیں ہو سکے ۔۔۔۔ آج ابا کی آواز سنے کئی برس بیت چکے ہیں ۔۔۔ زندگی جوانی کا پل کراس کر چکی ہے۔۔۔ اب اکثر کام کے دوران وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔۔۔ اب ساری رکاوٹیں پار کر کے ابا کے کھانے کی ٹیبل پر پانچ منٹ میں نہیں پہنچتے ۔۔۔ چونکہ زندگی اتنی مصروف ہو چکی ہے کہ جس ٹیبل پر میٹنگ چل رہی ہو وہیں کھانا آرڈر کر دیتے ہیں ۔ کھانا بالکل پیٹ کی زبان کے ذائقے کا ہوتا ہے لیکن دل اتنا نادان ہے کہ نہ جانے کیوں اماں ابا کی ٹیبل کے ٹنڈوں میں کہیں گم ہے ۔۔ کہ ان ٹنڈوں میں بہن بھائیوں کی نوک جھونک، اماں کی کچن کی محنت اور ابا کی۔۔ کھانا سب نے اکٹھے کھانا ہے ۔۔ کی آواز کی شفقت شامل تھی ۔۔۔ تو آج میں جب رات کے بارہ بجے یا ایک بجے میٹتنگ سے فارغ ہو کر گھر پہنچتا ہوں تو ڈائننگ ٹیبل کی ایک خالی کرسی کھینچ کر بیٹھ جاتا ہوں ۔۔۔ روزانہ دوپہر کے دو اور رات کے نو بجتے ہیں لیکن ابا کی اکٹھا کھانا کھانے کی آواز نہیں آتی اور مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں روزانہ خالی پیٹ سوتا ہوں۔