تحفظ ختم نبوت کیلئے جمعیت علماء پاکستان کا کردار

قرآن حکیم فرقان حمید میں خالق کائنات اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔ ہاں اللہ کے رسول ہیں اورسب نبیوں میں آخری۔ اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
 عقیدہ ختم نبوت اسلام کے ان اجتماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں اور عہد نبوت سے لے کر اس عہد تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا کسی تاویل کے خاتم النبیین ہیں۔ علماء امت نے قرآن مجید کی ایک سو آیات، رحمت عالم ؐ کی دوسو دس احادیث مبارکہ سے یہ مسئلہ ثابت کیاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا ہے۔ چنانچہ عقیدہ ختم نبوت کوجاننا اور اس پر ایمان ہر مسلمان پر فرض ہے۔عقیدہ ختم نبوت کا تعلق اسلام کے بنیادی عقائد سے ہے یعنی ایک مسلمان اس پر ایمان رکھے کہ ہمارے آقا سردار الانبیاء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی نبی یارسول نہیں آئیگا۔
نبی کریمﷺ کے بعد بہت سے جھوٹے کذابوں نے نبوت کے دعوے کیے جن میں مسلیمہ کذاب اور دیگر شامل تھے۔ خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اس کے خلاف جنگ کی اور اسے واصل جہنم کیا۔ اس جنگ میں سینکڑوں حفاظ صحابہ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ مسلمانوں نے ہر دور میں جھوٹے مدعیان نبوت کے خلاف جہاد کیا۔ قیام پاکستان سے قبل ہی بھارتی پنجاب میں انگریزوں کے ایماء پر مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کاجھوٹا دعویٰ کیا جس پر علمائے اسلام نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور تحریرو تقریر کے ذریعے اس کے عقائد سے مسلمانوں کو آگاہ کیا اور ہر ممکن اس کا تعاقب کیا مناظروں اور مباحثوں کے چیلنج کے ذریعے ہر سطح پر اس کو جھوٹا کذا ب اور کافر ثابت کیا۔
قادیانیوں کی اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں اور سرگرمیاں جاری رہی انگریزوں اور ہندوئوں کے ساتھ سازباز کرکے انہوں کشمیر سمیت دیگر سازشوں کے ذریعے شجر اسلام اور قیام پاکستان کے وقت پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ قیام پاکستان کے بعد اس کی کابینہ میں سرظفراللہ خان قادیانی کو وطن عزیز پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر کردیا گیا۔ سر ظفراللہ خان نے ایک سازش کے ذریعے تمام پاکستانی سفارتخانوں کو قادیانیت کی تبلیغ کے لئے استعمال کیا اور بے شمار قادیانیوں کو ملازمتیں دیں۔ اسلامیان پاکستان نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا جس کے نتیجہ میں قادیانیوں کے خلاف 1953ء میں ایک بڑی تحریک نے جنم لیا جس میں مطالبہ کیا گیا قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے اور قادیانی وزیر خارجہ سر ظفراللہ کو برطرف کیا جائے۔ اس تحریک ختم نبوت میں دس ہزار سے زائد شمع رسالت کے پروانوں نے جام شہادت نوش کیا مگر اس وقت کی فوجی حکومت نے مارشل لاء کی طاقت کے ذریعے اسے دبا دیا۔ مجاہد ملت مولانا محمد عبدالستار خان نیازی ،مولانا خلیل احمد قادری اور مولانا مودودی کو سزائے موت سنائی گئی۔1953ء میں یہ تحریک ختم نبوت بظاہر مارشل لاء کے ذریعے ختم کردی گئی مگر عاشقان ختم نبوت اور اسلامیان پاکستان کے دلوں میں قادیانیوں کے خلاف ’’لاوا‘‘ پکتا رہا۔علامہ امام شاہ احمد نورانی صدیقی (جو اس وقت قومی اسمبلی میں جمعیت علماء پاکستان کے پارلیمانی لیڈر تھے)  نے 30جون 1974 ء کو قومی اسمبلی میں قادیانیوںکے خلاف ایک قرار داد جمع کروائی جس پر 37 افراد کے دستخط موجود تھے۔ 1974ء میں اس عظیم تحریک کا آغاز 29 مئی کوقادیانیوں کی نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء پر’’ربوہ‘‘ (چناب نگر) ریلوے اسٹیشن پر مار پیٹ کرنے اور طلباء کو شدید زدوکوب کرنے سے ہوا۔ اس واقعہ کے بعد ملک بھر میں جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ شہر شہر قریہ قریہ جلوس نکالے جارہے تھے اور قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر تھا۔ قریب تھا کہ ملک میں خون خرابہ ہو اور ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچے کیونکہ بھارت، امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل قادیانیوں کی پشت پناہی کررہے تھے۔ملک کے تمام بڑے شہروں لاہور، فیصل آباد، ساہیوال، ملتان، سرگودھا، گوجرانوالہ میں لوگ سراپا احتجاج تھے اور حکومت سے مطالبہ کررہے تھے کہ اس سانحہ کی عدالت عالیہ کے کسی جج سے تحقیقات کروائی جائے۔ امام شاہ احمد نورانی صدیقی جو قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں سے پہلے ہی آگاہ تھے اور سقوط ڈھاکہ کا اصل مجرم بھی قادیانیوں کو سمجھتے تھے۔ انہوں نے یحییٰ خان کو قادیانی، اسرائیل گٹھ جوڑ کے متعلق آگاہ بھی کیا تھا۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے اسمبلی سے باہر جون 1974ء سے لے کر ستمبر 1974ء تک ملک کے طول عرض میں مسلسل دورے کرکے عامتہ المسلمین کو قادیانی فتنہ کی ہلاکت انگیزیوں سے آگاہ کیا۔ مسئلہ کی سنگینی کے پیش نظر اور قادیانیوں کے عزائم کی سرکوبی کے لئے ضروری تھا کہ سیاسی و آئینی کوششوں کے ذریعے قادیانی فتنہ کی سرکوبی کی جائے۔اس سے قبل مولانا شاہ احمد نورانی آئین پاکستان 1973ء میں مسلمان کی متفقہ تعریف شامل کروا چکے تھے۔ چنانچہ امام نورانی جو 30 اپریل 1974ء کو قادیانیوں کے خلاف قومی اسمبلی میں ایک تاریخی قرار داد پیش کر چکے تھے جس میں مطالبہ کیا گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
 امام شاہ احمد نورانی کو راہ حق سے ہٹانے کے لئے لاہوری گروپ نے سی ایس پی آفیسر سے سیکرٹری وزارت صنعت و حرفت حکومت پاکستان کے ذریعے1974ء میں 50 لاکھ روپے کی پیشکش کی امام نورانی نے غصے میں آکر اس رقم کو ٹھوکر ماری اور کہا کہ ہمارا سودا بازار مصطفیٰؐ میں ہو چکا ہے۔ میں اس قرار داد سے ایک لفظ بھی حذف نہیں کرسکتا۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے یہ تہیہ کرلیا تھا کہ اب قادیانیوں کو کیفر کردار تک پہنچائے بغیر چین سے نہیں بیٹھا جائے گا۔ چنانچہ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قومی اسمبلی میں اس مسئلے کے حل کیلئے آمادہ کیاجس پر بھٹو نے اس قراردادکی حمایت کا وعدہ کیا۔ قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر کو اپنی جماعت کے عقائد کے بارے میں صفائی اور موقف پیش کرنے کا آزادانہ موقع دیا گیا جس میں علماء کے مسلسل سوالات نے اسے لاجواب اور جھوٹا ثابت کردیا۔ 13 دن تک مسلسل قومی اسمبلی میں اس مسئلہ پر بحث ہوئی اور امام نورانی نے دیگر علماء کی مدد سے اس وقت کے اٹارنی جنرل کے ذریعے سینکڑوں سوالات کئے اور مرزا ناصر کو لاجواب اور جھوٹا ثابت کیا۔
اس بحث میں امام نورانی نے قومی اسمبلی کو قادیانیوں کے بھارت اور اسرائیل کے ساتھ روابط ،پاکستان کو معاشی اور جغرافیائی نقصان پہنچانے کے بھی ثبوت پیش کیے۔ اس طویل بحث کے بعد پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں اور لاہوری گروپ کو7ستمبر1974ء کو شام 4 بجے متفقہ طور پر غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا۔ اسی روز سینٹ میں یہ قانون پاس کرلیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...