عقیدہ ختم ِنبوت: ایمان کی شرط

تخلیق کائنات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو اپنا خلیفہ مقر ر کیا اور اسکی راہنمائی کیلئے انبیاء کرام کی صورت میں قیادت سے اور قرآن کریم اور آسمانی کتابوں سے نوازا اور پھر کائنات میں ایسے آثار پیدا کئے جس کے نتیجہ میں ایک انسان اس حقیقت تک پہنچتا ہے کہ کائنات کا ایک خالق ہے اور ہم اس کی مخلوق ہیں۔ نبی اکرمؐ کی بعثت سے پہلے جب کوئی نبی رحلت فرماتا تھا تو اللہ تعالیٰ دوسرا نبی بھیجتا تھا۔ خاتم النبیین والمرسلین حضرت محمدﷺ کی بعثت کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے انبیاء  و رسل کی بعثت کا سلسلہ ختم کردیا۔قرآن کریم میں سو مقامات پر بہت ہی واضح انداز میں اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر  ختم نبوت کا اعلان فرمایا ہے۔
عقیدہ ختم نبوت ایمان کی بنیاد ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری نبی ہونے پر غیر متزلزل ایمان اور انکے بعد کسی نبی پیغمبر یا رسول کی آمد کا تصور بھی نہ کرنے کا عقیدہ ہی دراصل وہ بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر ایمان کی عمارت کھڑی رہ سکتی ہے ’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلہِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے’’الاحزاب، 33 : 40‘‘
ترمذی شریف کی ایک حدیث ہے جس کے راوی حضرت انس بن مالک  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘ میرے بعد میرے نمائندے یعنی خلفاء ہونگے۔ انبیا کرام کی انسانیت کی راہنمائی کی جو ذمہ داری تھی وہ ساری ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اب اس آخری امت پر ڈالی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’تم میں ایک امت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی اور خیر کی طرف بلائے ، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں کوئی فرد یا تنظیم ایسی اٹھاتا ہے جو دین کے خوبصورت چہرے پر اگر کوئی گرد و غبار پڑی ہوتو اسے صاف کرتی ہے اور دوبارہ اس کو اسی طرح نکھارتی ہے جس طرح یہ دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں پہنچایا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ میرے بعد تیس کذاب اٹھیں گے جو نبوت کا دعویٰ کرینگے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اسلامی دور حکومت میں، کسی نے ختم نبوت پر حملہ کیا اس کو واصل جہنم کردیاگیا؛ حضور کی رحلت کے فورا بعد ہی مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کردیا ،خلیفہ رسول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نا مساعد حالات اور حضور کی رحلت کے صدمہ اور مشورہ کے باوجود جھوٹے مدعی نبوت کو قتل کرنے کیلئے ایک لشکر بھیجا اور اسے واصل جہنم کیا۔ مگر جب استعماری طاقتیں عالم اسلام پر غالب آگئیں اور اس طرح کے فتنوں نے سر اٹھایا تو علما قلم وکاغذ لیکر میدان کارزار میں اتر آئے اور الحمدللہ انہوں نے ختم نبوت کا بھرپور دفاع کیا، انگریز کے زمانہ میں عدالتوں میں اور کتابوں کے ذریعہ صرف غلام احمد قادیانی لعین کے رد میں لاکھوں صفحات اردو انگریزی اور دیگر زبانوں میں تحریر کیے گئے، سید ابوالاعلیٰ مودودی نے مسئلہ قادیانیت تحریر کرکے بلاشبہ امت پر ایک عظیم احسان کیا۔ ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والوں کوکافر قرار دلوانے میں مسئلہ قادیانیت کا بنیادی کردار ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ امت مسلمہ کیلئے کتنی اہمیت کا حامل ہے۔
زمانہ شاہد ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم  کی ختم نبوت کے تحفظ کیلئے ہزاروں عاشقان رسول نے اپنی جانیں نچھاور کیں اور شمع رسالت کے پروانے آپ کی ناموس پر قربان ہوکر ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید ہوگئے۔ مسلیمہ کذاب کیخلاف جنگ میں سات ہزار حافظ قرآن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی شہادت اور پھر اسکے بعد کے آنیوالے ادوار میں نبوت کے دعوے کرنیوالے ملعونین اور گستاخان رسول سے اللہ کی زمین کو پاک کرنے کیلئے جب بھی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا وقت آیا کبھی کوئی مسلمان پیچھے نہیں رہا۔ وہ غازی علم دین ہو، عامر چیمہ یا ممتاز قادری شہید ہو۔ ان شہداء جیسے ہزاروں ہیرے ناموس رسالت پر کٹ مرے مگر نبی اکرم کی شان میں گستاخی کرنے والوں سے اس زمین کو پاک کرکے چھوڑا۔ حضور نبی محترم کی حرمت جب تک ہمیں اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز تر نہیں ہوجاتی، ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔
 نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی حرمت پر
خدا شاہد ہے، کامل میرا ایماں ہونہیں سکتا
امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ جھوٹے نبی کے پیروکار مرتد اور خارج ازاسلام ہوتے ہیں لیکن یہ مسئلہ اتنا حساس اور واضح ہے کہ اگر کوئی شخص جھوٹے مدعی نبوت سے کوئی دلیل طلب کرتا ہے تو وہ بھی اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ غلام احمد قادیانی مردود بھی مسیلمہ کذاب کا تسلسل ہے جسے انگریز نے پالا پوسا اور مسلمانوں میں فکر ی انتشار پیدا کرنے کیلئے اسے جھوٹا نبی بنا کر پیش کیا۔یہ کذاب اپنی شخصیت کے لحاظ سے ایک غیر متوازن اور مخبوط الحواس شخص تھا اسی لئے اس نے کبھی خود کو نبی کہا، کبھی مسیح موعود اور کبھی کہا کہ میں نبی کاسایہ ہوں۔اسکے بیانات میں مسلسل تضادات ہیں۔ برطانیہ کا لگایا ہوایہ پودا آج تک امت میں کانٹے بکھیر رہا ہے۔ اللہ والوں نے ہمیشہ ان جعلی اور جھوٹے مدعیان نبوت کا مقابلہ کیا اور ماضی کی طرح برصغیر کے مسلمانوں نے بھی غلام احمد قادیانی کو جھوٹا ثابت کیا۔ الحمدللہ اول روز سے مسلمان ختم نبوت کے مسئلہ پر اتنے یکسو ہیں کہ ایک خطاکار اور گنہگار انسان بھی جو عملی لحاظ سے کمزور ہوسکتا ہے لیکن ختم نبوت کے معاملے میں وہ ہر وقت اپنی جان نچھاور کرنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو 1953ء￿  میں قادیانی مسئلہ لکھنے پر پھانسی کی سزا سنا دی گئی جو بعد میں عالم اسلام کے پرزور احتجاج اور عالمی اسلامی تحریکوں کے قائدین کی اپیل پر عمر قید میں تبدیل کردی گئی۔ انہیں قیدوبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ بعدازاں انہیں رہا کردیا گیا۔اسلامی جمعیت طلبہ نے ختم نبوت کے تحفظ کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں۔ 22 مئی 1974ء نشتر میڈیکل کالج، ملتان کے کچھ طلبہ معلوماتی دورے پر پشاور جا رہے تھے۔ چناب نگر (ربوہ) ریلوے سٹیشن پر قادیانیوں نے اپنا کفریہ لٹریچر تقسیم کرنے کی کوشش کی، طلبہ نے اس لٹریچر کو لینے سے انکار کیا اور کچھ پکڑ کر پھاڑ کر پھینک دیا۔ طلبہ نے غیرت ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے ختم نبوت زندہ باد، قادیانی مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ 29 مئی کو طلبہ کا یہ قافلہ واپس آیا توقادیانی سٹیشن ماسٹر نے قادیانیوں کو اکٹھے کرلیا اور طلبہ کی بوگی پر حملہ کردیا۔ خلافِ ضابطہ چناب نگر ریلوے سٹیشن پر گاڑی روک لی گئی۔ سینکڑوں مسلح قادیانیوں نے لاٹھیوں، کلہاڑیوں اور برچھیوں سے حملہ کرکے 30 کے قریب نہتے طلبہ کو شدید زخمی دیا۔ تشدد سے نشتر میڈیکل کالج یونین کے صدر بے ہوش گئے۔ اِس واقعہ کا پورے ملک میں زبردست ردِعمل سامنے آیا۔ اسلامی جمعیت طلبا نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بھرپور احتجاج کیا۔
پورے ملک میں قادیانیوں کی اس غنڈہ گردی نے اشتعال برپا کردیا۔ جس سے یہ مسئلہ اقتدار کے ایوانوں تک جاپہنچا ، طویل بحث کے بعد قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا گیا اور آئین پاکستان کی رو سے گستاخ رسول کی سزا موت مقرر کی گئی۔ قادیانی جس طرح حضرت محمد خاتم النبیین کے غدار اور منکر ہیں اسی طرح آئین پاکستان کے بھی غدار ہیں۔ مگر اسکے باوجود ملک کے اہم عہدوں اور مناصب پر براجمان ہیں۔ آئے روز آئین پاکستان کی توہین اور پامالی کے واقعات ہوتے ہیں مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی اور قادیانیوں کو لگام دینے کیلئے تیار نہیں، حکمر انوں کی طرف سے قادیانیوں کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ انہیں وزیر اور مشیر بنایا جاتا ہے اور مختلف طریقوں سے انہیں نوازا جاتا ہے۔
عالمی استعماری قوتوں کے کہنے پر حکومتوں کے اس رویے پر پوری قوم دل گرفتہ ہے۔ پاکستان کی سلامتی اور اسکے اسلامی تشخص کیخلاف سازشوں میں مصروف قادیانیوں کیخلاف اگر حکومت نے رویہ نہ بدلا تو قوم اسے زیادہ دیر برداشت نہیں کریگی۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن