علامہ اقبال اور قادیانیت

ترجمانِ حقیقت حضرت علامہ اقبال بیسویں صدی کے شہرئہ آفاق دانشور، عظیم روحانی شاعر، اعلیٰ درجہ کے مفکر اور بلند پایہ فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عہد ساز انسان بھی تھے۔ ایسی زندہ و جاوید ہستیاں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا دل ملتِ اسلامیہ کے لیے دھڑکتا تھا۔ وہ انسانیت کی اعلیٰ قدروں کے وارث اور شارح تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے انحطاط اور تنزل کی گھاٹی کی طرف تیزی سے گرتے عالم اسلام کے تن مضمحل میں ایک نئی روح پھونکی اور اسے انقلاب کی راہ دکھائی۔علامہ اقبال کے حوالے سے یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ وہ انسانی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ، نابغہ روزگار اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ جہاں تک قادیانیت کا تعلق ہے تو اس حوالے سے تو وہ محرمِ رازِ درون خانہ تھے۔ انہوں نے جب بنظر غائر دیکھ لیا کہ مرزائی خود تو مرتد اور غیر مسلم ہیں ہی، لیکن عامۃ المسلمین کو بھی مرتد بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر انہیں گمراہ کر رہے ہیں تو وہ اسے اپنی اسلامی غیرت و حمیت اور محبت رسولؐ کے حوالے سے برداشت نہ کر سکے۔ انہوں نے انتہائی زیرکی اور ڑرف نگاہی سے اس اہم مسئلے کا جائزہ لیا اور اپنے تاثرات امت مسلمہ کے سامنے واضح انداز میں پیش کر دیے۔ عاشق رسول علامہ اقبال کو اس بات پر کامل ایقان تھا کہ حضرت محمد عربیؐ کی ذاتِ اقدس پر رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا، آپؐ خاتم النبیین ہیں، آپؐ کے بعد کسی قسم کا کوئی تشریعی، غیر تشریعی، ظلی، بروزی یا نیا نبی نہیں آئے گا، اگر کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو وہ نہ صرف کاذب و مفتری ہے بلکہ دائرہ اسلام سے بھی خارج ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ختم نبوت اسلام کا متفقہ، اساسی اور اہم ترین بنیادی عقیدہ ہے۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو پوری امت مسلمہ کے اتحاد، یکجہتی، وحدت، استحکام اور سالمیت کا آئینہ دار ہے۔
 دین اسلام کی پوری عمارت اس عقیدہ پر کھڑی ہے۔ یہ ایک ایسا حساس عقیدہ ہے کہ اگر اس میں شکوک و شبہات کا ذرا سی بھی رخنہ پیدا ہو جائے تو ایک مسلمان نہ صرف اپنی متاعِ ایمان کھو بیٹھتا ہے بلکہ وہ حضرت محمدﷺ کی امت سے بھی خارج ہو جاتا ہے۔
علامہ اقبال کو اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ ملتِ اسلامیہ کو جن فتنوں نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، ان میں سب سے خطرناک فتنہ قادیانیت کا ہے۔ علامہ اقبال نے قادیانیوں کی ملتِ اسلامیہ کے خلاف بڑھتی ہوئی سازشوں کو شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے خطبات، مضامین، توضیحات، خطوط اور افکار و اشعار کے ذریعے قادیانیت کی سرکوبی کی اور اس تحریک کے عالم اسلام پر دینی، معاشی، سیاسی اور تمدنی اثرات اور ان کے منفی نتائج سے امتِ مسلمہ کو آگاہ کیا۔ علامہ اقبال کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے حکومت کو سب سے پہلے یہ مطالبہ پیش کیا کہ قادیانیت کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے کیونکہ یہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ملتِ اسلامیہ کی اجتماعیت کو پارہ پارہ کر رہے ہیں اور مسلمانوں کے اندر رہ کر ایک نئی امت تشکیل دے رہے ہیں۔ حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال کے نزدیک ختم نبوت پر مکمل ایمان، در اصل مسلم اور غیر مسلم کے درمیان ایک حد فاصل ہے۔ انہوں نے 3 مئی 1935ء کو عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور قادیانیت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’مسلمان ان تحریکوں کے معاملہ میں زیادہ حساس ہے جو اس کی وحدت کے لیے خطرناک ہیں۔ چنانچہ ہر ایسی مذہبی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو لیکن اپنی بناء نئی نبوت پر رکھے اور بزعمِ خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھے، مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لیے خطرہ تصور کرے گا اور یہ اس لیے کہ اسلامی وحدت ختمِ نبوت سے ہی استوار ہوتی ہے‘‘۔ (قادیانی اور جمہور مسلمان از علامہ محمد اقبال مطبوعہ اسٹیٹسمین (دہلی) 14 مئی 1935ء)
’’ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعویٰ کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزاء نبوت کے موجود ہیں یعنی یہ کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کاذب ہے اور واجب القتل۔ مسیلمہ کذاب کو اسی بنا پر قتل کیا گیا ‘ (انوار اقبال از بشیر احمد ڈار صفحہ 45)
پنڈت جواہرلال نہرو کے نام ایک تاریخی خط میں حضرت علامہ اقبال قادیانیوں کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’میں اپنے ذہن میں اس امر کے متعلق کوئی شبہ نہیں پاتا کہ احمدی اسلام اور ہندوستان کے غدار ہیں۔‘‘ (حضرت علامہ محمد اقبال کا خط بنام پنڈت جواہر لال نہرو بتاریخ 21جون 1936ء)
’’ میری رائے میں قادیانیوں کے سامنے صرف دو راہیں ہیں، یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں اور ختم نبوت کے اصول کو صریحاً جھٹلا دیں یا پھر ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑ کر اس اصول کو اس کے پورے مفہوم کے ساتھ قبول کر لیں۔ ان کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقہ اسلام میں ہو تاکہ انھیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں‘‘۔ (علامہ محمد اقبال کا خط اسٹیٹسمین (دہلی) کے نام مطبوعہ 10 جون 1935ء)
علامہ نے 1936ء میں پنجاب مسلم لیگ کی کونسل میں قادیانیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کی تجویز بھی پاس کرائی اور صوبائی اور مرکزی اسمبلی کے لیگی امیدواروں سے حلفیہ تحریری اقرار نامہ لکھوایا کہ وہ کامیاب ہو کر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے لیے آئینی اداروں میں مہم چلائیں گے۔ افسوس کہ اس کاروائی کا ریکارڈ قادیانی نواز لوگوں نے علامہ کے انتقال کے بعد تلف کروا دیا۔ یہ اعزاز بھی حضرت علامہ اقبال کو حاصل ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ چونکہ قادیانی مذہبی اور سیاسی طور پر مسلمانوں سے علیحدہ تشخص رکھتے ہیں، لہٰذا انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ اس سلسلہ میں وہ فرماتے ہیں۔
 عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے سلسلہ میں حضرت علامہ اقبال نے شعر و سخن کے ذریعے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ اردو اور فارسی میں کئی نظمیں قادیانیت کی تردید و مذمت میں لکھیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...