7 ستمبر 1974کا تاریخ سازدن

تار یخ میں ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء؁ کو بڑی اَہمیت حاصل ہے۔ اِس تاریخ ساز دن کے موقع پر تمام ممبرانِ قومی اسمبلی کی اِجتماعی جدو جہد سے قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا گیا۔ اگرچہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ۱۹۵۳ء؁ سے ہی قادیانیوں کے خلاف تحریکِ تحفظ ختم نبوت جاری ہو چکی تھی۔ اِس تحریک میں دس ہزار مسلمانوں نے جام شہادت نوش  کیا۔دور نبوتؐ ہی سے مسلیمہ کذاب اولین دجّالوں میں سے ہے جو نبوتِ مصطفی کریم ؐ کا منکر تو نہ تھا مگر وہ شریکِ نبوت کا دعویدار تھا۔ اُس نے حضور  ؐ کے وصال سے قبل آپ  ؐ کو ایک خط لکھا جس میں اس کذّاب دجّال نے اپنے آپ کو رسول لکھا۔ قائد تحریک تحفظ ختم نبوت خلیفۃ الرسول خلیفہ بلا فصل حضرت سیّدنا ابو بکر صدیقؓ کے عہد میں جن ۱۲ سو شہداء کرام جلیل القدر صحابہ کرام‘ محدثین‘ مفسرین‘ حفاظ کرام اور اہل بدر نے شہادت پائی ،ہمارے اکابرین ملت اور عاشقان ِختم نبوت کیلئے عہد خلافت  ہی سے زندہ تابندہ مثال تھی جو ہمیشہ قائم و دائم رہے گی۔ اُن شہدائے کرام کی یاد  تازہ کر کے  1953 ء کی تحریک ختم نبوت میںرسولِ کریم ؐ کے دو لاکھ سے زائد عشاق نے جیلوں میں قیدبند  اور موت کی سزاؤں کا سامنا کیا۔ مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی کو سزائے موت سنائی گئی علامہ ابو الحسنات کو قید خانے میں بند کر دیا گیا اُن کے صاحبزادے امین الحسنات مولانا خلیل احمد قادری کو بھی سزائے موت سنائی گئی۔ مولانا ابو الحسنات نے یہ خبر سنتے ہی فرمایا: یہ تو میرا ایک خلیل ہے اگر میرے ہزاروں خلیل بھی ہوتے تو نبی کریم رؤف ورحیمؐ کی نعلین پاک پر قربان کر دیتا۔ پھر سابق وزیر اعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دورِ حکومت کا واقعہ ہے کہ ۲۲ مئی ۱۹۷۴ء؁ کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء چناب نگر کے راستے پشاور کے تفریحی سفر پر جا رہے تھے کہ ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانیوں نے اُن کو لٹریچر دیا جس پر اُنہوں نے اِحتجاج کیا۔ لٹریچر لینے سے اِنکار کیا اور ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے۔ واپسی پر ۲۹ مئی کو طلباء کی گاڑی خلاف ضابطہ ربوہ اسٹیشن پر روک کر  ایک ہزار مسلح قادیانی غنڈے لاٹھیوں‘ سریوں اور برچھیوں کے ساتھ نہتے طلباء پر ٹوٹ پڑے اور نہتے طلباء پر بے پناہ ظلم و تشدد کیا جس سے ۳۰ طلباء شدید زخمی ہو گئے۔ اِس واقعہ کا پورے ملک میں زبردست ردِ عمل ہوا۔ دینی جماعتوں کی اپیل پر پاکستان کے مختلف شہروں میں پرجوش ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دیا جائے۔

قومی اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی‘ مولانا عبدالمصطفیٰ اظہری‘ پروفیسرغفور احمد‘ مفتی محمود‘ مولانا عبدالحق‘ نوابزادہ نصر اللہ خان اور دیگر علماء کرام موجود تھے۔ فوری طور پر اُن کا اجلاس ہوا اور تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں پر مشتمل مجلس عمل تشکیل پائی۔ مولانا شاہ احمد نورانی علیہ الرحمہ نے ۴۴ ممبران کے دستخطوں سے قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دینے کا بل پیش کیا اور ۳۰ جون ۱۹۷۴ء؁ کو قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دینے کے لئے مولانا شاہ احمد نورانی علیہ الرحمہ نے متفقہ طور پر ایک قرار داد پیش کی۔ قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دے کر بل پر بحث شروع کی گئی۔ مرزا ناصر اور مرزا صدر الدین وغیرہ کو بلایا گیا۔ یحییٰ بختیار کے ذریعے اُن پر جرح کی گئی۔ آخر کار ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء؁ کو قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی آئینی ترمیم عبدالحفیظ پیر زادہ وزیر قانون کے ذریعے پیش کی گئی۔
۷ ستمبر ۱۹۷۴ء؁ کے قومی اسمبلی کے اجلاس کو پولیس اور فوج نے گھیر رکھا تھا۔ ہزاروں مجاہدینِ ختمِ نبوت قومی اسمبلی کے باہر شعلہ جوالہ بنے کھڑے تھے۔ ۴ بجے فیصلہ کن اَجلاس ہوا اور ۴ بجکر ۳۵ منٹ پر قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا گیا اور ۹۰ سال کی طویل جدوجہد کے بعد ایک اَرب مسلمانوں کو کافر کہنے والی تخریبی قادیانی جماعت غیر مسلم قرار دی گئی۔ پاکستان میں قادیانی جماعت کا مرکز ضلع چنیوٹ سے پانچ میل کے فاصلے پر دریائے چناب کے پار ربوہ (اَب چناب نگر) کے نام سے آباد ہے۔ پاکستان بننے کے بعد گورنر پنجاب سر فرانسس موڈی نے پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خاں جو مرزائیوں کا بڑا نمائندہ تھا‘ کی سفارش پر ربوہ (چناب نگر) کی ۱۰۳۳‘ایکڑ زمین (ایک آنہ فی مرلہ کے حساب سے) قادیانیوں کو ۱۰۰ سال کے لئے لیز پر سے دی اِسے شہر کا درجہ دے کر اِس کا افتتاح مرزا محمود قادیانی نے کیا۔ ربوہ میں ۱۹۷۴ء؁ سے پہلے کوئی مسلمان داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ اَب بھی اگر کوئی مسلمان چناب نگر میں داخل ہو تو اُس کے پیچھے قادیانی سی آئی ڈی لگ جاتی ہے اُس سے نہ صرف پوچھ گچھ ہوتی ہے بلکہ اُس کی تمام حرکات و سکنات کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔
قادیانی جماعت نے دور حاضرہ میں ایک فتنہ کھڑا کیا ہے کہ لفظ خاتم النبیین کے معانی نبیوں کے آخری اور سلسلہ انبیاء کو ختم کرنے والے نہیں بلکہ مراد نبیوں کی مہر ہے کہ ’’نبی کریم ؐ کے بعد جو نبی آئے گا (نعوذ باللہ) وہ حضور ؐ کی مہر لگنے سے نبی بنے گا۔ اور ایسے نبی کے لئے اُمّتی ہونا لازمی ہے‘‘۔ … اور ظلی نبوت جس کے معنی ہیں کہ محض فیضِ محمدی سے وحی پانا وہ قیامت تک باقی رہے گی۔   (حقیقتہ الوحی ص۲۸ مرزا قادیانی)
اِسی جماعت نے ایک دوسری تاویل کی ہے کہ خاتم النبیین کا معنی سب نبیوں سے اَفضل۔  یعنی ختم نبوت کا یہ معنی ہے کہ محمد رسول اللہ ؐ کا مقام سب نبیوں سے اَفضل ہے۔(تفسیر صغیر از مرزا بشیر الدین محمود احمد زیر آیت و خاتم النبیین حاشیہ نمبر۱ ص۵۵۱) یعنی نبوت کا دروازہ تو کھلا ہے‘ اَلبتہ کمالاتِ نبوت‘ حضور ؐ پر ختم ہو گئے ہیں۔ یہ بات بھی محض باطل اور جھوٹی تشریح ہے۔ درحقیقت خاتم النبیین کا مطلب سب نبیوں سے آخری نبی اور نبیوں کے سلسلہ نبوت کے ختم کرنے والے ہیں۔ نبی کریم ؐ کے بعد کوئی شخص نیا نبی بن کر آنے والا نہیں۔ کسی قسم کا سلسلۂ نبوت یعنی ظلی نبوت‘ بروزی نبوت‘ تشریعی نبوت یا غیر تشریعی نبوت محال ہے۔ اس لئے خود رب العالمین نے اپنے محبوب رحمتہ للعالمینؐ کو خاتم النبیین یعنی سب نبیوں سے آخری فرمایا ہے۔ (الاحزاب:۴۰)
قرآنِ مجید کے بعد اَحادیث نبویہ ؐ سب سے اَہم اور بڑا ذریعہ ہیں۔جن میںخاتم النبیین علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کیا مفہوم اور معنی بیان ہے ۔حضرت ابوامامہ باھلی سے روایت ہے‘فرماتے ہیں‘  میں نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا:  ’’اے لوگو! یقین جان لو کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمّت نہیں‘ اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور نماز پنجگانہ کو ادا کرو‘ اور ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھو اپنے حکمرانوں کے حکم کی اِطاعت کرو تمہارا رب تمہیں جنت میں داخل فرمائے گا‘‘۔  (المعجم الکبیر للطبرانی جلد۸ ص۱۱۵۔۱۳۶‘ جلد۸ ص۱۳۸‘ مسند احمد جلد۵ ص۲۶۲۔۲۵۱‘ مستدرک حاکم جلد۱ ص۵۴۷۔۵۲‘ ترمذی حدیث نمبر۶۱۱‘ مجمع الزوائد جلد۸ ص۲۶۳‘ کنزالعمال حدیث نمبر۱۲۹۲۲)

ای پیپر دی نیشن