مجاز اتھارٹی کون؟

کوئی کسی سے کسی بات کی تصدیق یا تردید کرنے کے بارے میں سوال کرے اور وہ شخص جواب میں محض مسکرا دے تو اس سے کیا مطلب سمجھا جائے؟۔ کیا وہ تصدیق کر رہا ہے، اس نے تردید کر دی ہے؟۔ اس کا انحصار مسکرانے کے انداز میں ہے اور سوالی مسکراہٹ ’’جیومیٹری‘‘ سے سمجھ جاتا ہے کہ اس خندہ لبی کا مطلب کیا ہے۔ وہ مسکرانے کے انداز سے بتا دیتا ہے کہ بھئی کیا سوال کر رہے ہو، ایسی کوئی بات نہیں یا یہ کہ کمال ہے بھئی ، تم نے اصل بات پکڑ لی۔ تم نے جو سنا ہے، وہی سچ ہے۔ 
لیکن آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں کئے گئے سوال کے جواب میں اشارہ خندہ لبی سے کہیں بڑھ کر واضح تھا۔ سوالی نے پوچھا کیا فیض والے کیس میں خان اعظم کو بھی دھر لئے جانے کا امکان ہے تو جواب میں ارشاد ہوا کہ اگر کوئی فرد آرمی ایکٹ کے تابع کسی شخص کو ذاتی اور سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرتا ہے تو قانون کی گرفت میں آئے گا۔ 
سوال کرنے والے کو ’’شافی‘‘ جواب مل گیا، یہ کہ ہاں، ایسا ہی ہونے والا ہے۔ فیض حمید نامی ریٹائرڈ جنرل اور سابق آئی ایس آئی چیف اور خان ایک ہی مقصد اور ہدف کیلئے یک جان تھے اور وہ تھا خان کو دوبارہ برسراقتدار لانا اور عوضانے میں فیض حمید کو آرمی چیف بنایا جانا تھا (بقول شخصے تاحیات)۔ اطلاعات ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایک باخبر شخصیت نے جسے محرم راز بھی کہا جا سکتا ہے ، بتایا کہ 9 مئی کا سارا پلان فیض نے اپنے ہاتھ سے لکھا اور اس کی نقل (یا اصل) اپنے گھر میں محفوظ کر لی۔ اتنی خطرناک دستاویز گھر میں کیوں رکھی۔۔ اس کی وجہ وہ ’’حق الیقین، تھا کہ میرے گھر میں کون چھاپہ مار سکتا ہے۔ سکیورٹی کلیئرنس کے بغیر اندر نہیں آ سکتی تھی۔ بس اسی بنا پر یہ خطرناک گواہی گھر میں چھپا رکھی لیکن پھر گردش فلک نے دن یہ دکھائے کہ چھاپہ بھی پڑا، تلاشی بھی ہوئی اور برآمدگیاں بھی اور موصوف دھر لئے گئے۔ اب ’’شریک ملزم‘‘ بلکہ 9 مئی کی بارات کے دولہا کی باری آیا چاہتی ہے۔ 
جس محرم راز کا ذکر اوپر ہوا، ان محترم کا نام ابصار عالم ہے۔ 
___
9 مئی کا جو بھی پلان تھا، وہ جوں کا توں رہنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ پلان یہ تھا کہ فوجی تنصیبات پر حملے ہوں گے اور تنصیبات کی تعداد ایک دو یاچار پانچ یا دس بیس نہیں تھی، پوری 232 تنصیبات پر حملے کی تفصیلات طے ہوئی تھیں۔ کچھ اندر والوں سے بھی رابطہ تھا جنہوں نے بغاوت کر دینی تھی (اس کا اشارہ شہباز گل نے ہائبرڈ پراجیکٹ کے بدنام زمانہ ٹی وی کو دئیے گئے ویڈیو کال انٹرویو میں دے دیا تھا کہ ماتحت بغاوت کر دیں۔ موصوف بغاوت پر اکسانے کے الزام میں جھپٹ لئے گئے لیکن انسانی حقوق والی عدلیہ نے ترنت ایکشن لیا اور موصوف کو باعزت رہا کر کے باعزت امریکہ روانہ کر دیا)۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ اس کے بعد دولہا صاحب نے وزارت عظمیٰ کی گدّی سنبھالنی تھی اور فیض گنجور کو آرمی چیف بنا دینا تھا۔ پھر دونوں نے باہمی حسن سلوک سے الیکشن کرانا تھا جس میں دولہا سائیں نے دوتہائی اکثریت لے کر بادشاہی والا تاحیات صدارتی الیکشن کرانا تھا اور تاحیات حکمرانی کرنی تھی۔ فیض گنجور کو تاحیات توسیع ملنی تھی۔ منصوبے کا یہ حصہ بھی ٹھیک تھا لیکن کامیابی کے بعد دونوں مہاتمائوں کے الگ الگ منصوبے تھے۔ 
دولہا سائیں نے تاحیات صدر بننے کے بعد تابع مہمل قسم کا آرمی چیف لاناتھا_ وہ فیض گنجور جیسے چالاک اور سازشی کو کیسے برداشت کر سکتے تھے جو کسی بھی وقت ان کے خلاف ، کسی اور طرح کا نو مئی کرانے کی قدرت رکھتا تھا۔ دوسری طرف فیض گنجور کا منصوبہ کچھ عرصے بعد مارشل لا لگا کر دولہا سائیں کو ’’ودھوا‘‘ کر کے خود تاحیات فیلڈ مارشل اور چیف مارشل لا ایگزیکٹو بننے کا تھا۔ دونوں کے پلان زبردست تھے لیکن پھر دست تقدیر نے انہیں جو مار ماری وہ اس سے بھی زبردست تھی۔ 
___
اشارہ واضح تھا لیکن حقیقی آزادی کے مجاہدین نے حسب عادت اور حسب فہم اسے سمجھنے میں دیر کر دی اور جشن منانا شروع کر دیا کہ خان کو فوجی تحویل میں دینے کے سوال پر چونکہ نام لئے بغیر مبہم سا جواب دیا گیا ہے اس لئے خان بچ گیا ہے۔ رات آئی ہے سہانی، شادمانی شادمانی کے نغمے تو بجنے لگے۔ پھر آہستہ آہستہ انہیں سمجھ میں آیا (خود سے آیا یا کسی نے سمجھایا) تو گیت گریئے میں بدل گئے ، رات گئے تک سکوت مرگ طاری رہا۔ خیر، اس طرح تو ہوتا ہے پی ٹی آئی کے اس طرح کے معاملات میں۔ 
بلوچ رہنما اختر مینگل قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو کر وطن ہی چھوڑ گئے اور دبئی پہنچ گئے۔ اگلی منزل کون سی ہو گی، ابھی واضح نہیں۔ بہرحال، پارلیمانی جمہوریت، آئین کی بالادستی کے حامی اور عوامی حقوق کے سپاہی اختر مینگل کی یہ روانگی ملک اور پارلیمنٹ کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ 
استعفیٰ دینے سے پہلے اختر مینگل نے بیان دیا کہ لوگ کہتے ہیں بلوچستان ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ میں کہتا ہوں، ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ 
ان کی اس بات سے بڑی حد تک اتفاق ہے لیکن اب درست فقرہ یوں ہو گا کہ بلوچستان ہاتھ سے نکل چلا تھا کہ دستِ حافظ نے تھام لیا۔ اب ہاتھ سے نکل جانے والی بات کالعدم ہو گئی البتہ اب تھامے رکھنے کیلئے قوم کو حافظ کا ساتھ دینا ہے۔ بدقسمتی تو اصل میں یہ رہی کہ بلوچستان کی حکومت کے کارپرداز ، اعلیٰ سے ادنیٰ تک اس کے اہل نہیں۔ صوبائی حکمران وہ مخلوق ہیں جو اس مسئلے کی وجوہات میں شامل ہیں۔ یہ لوگ حالات کو مزید خراب کر سکتے ہیں، ٹھیک کرنے میں کچھ کردار ادا نہیں کر سکتے۔ 
اصولاً بلوچستان اور کے پی دونوں صوبوں میں نئے الیکشن ہونے چاہئیں۔ کے پی میں اس لئے کہ اسے ٹی ٹی پی کی حکمرانی سے نجات ملے اور بلوچستان میں اس لئے کہ اسے بی ایل اے کی غارت گری سے چھٹکارا ملے۔ دونوں صوبوں کی حکومتیں ان بلا?ں کی سہولت کار ہیں۔ ایک اعلانیہ طور پر، دوسری عملی طور پر۔ 
___
کوئی شخص دعویٰ کرے کہ اس نے فلاں کالج یا یونیورسٹی سے ڈگری لی ہے اور وہ کالج یا یونیورسٹی تحقیق کے بعد یہ اعلان کرے کہ اس نام کا طالب علم ہمارے ادارے میں کبھی زیرِ تعلیم رہا ہی نہیں تو کس کی بات مانی جائے گی؟۔ ظاہر ہے تردید کرنے والے کالج یا یونیورسٹی کی۔ یہی دستور کل عالم کا ہے۔ 
لیکن اب پتہ چلا کہ یہ دستور غلط ہے۔ متعلقہ یونیورسٹی یا کالج مجاز اتھارٹی ہی نہیں۔ پھر مجاز اتھارٹی کون ہے؟۔ یہ ابھی طے نہیں ہوا۔ شاید شوکت خانم لیبارٹری ہی کو مجاز اتھارٹی قرار دے دیا جائے۔ کون جانے؟

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...