آزادی کی قدر کریں!!!!!!

یوم دفاع تو گذر گیا لیکن ہمیں یہ پیغام دے کر گیا ہے کہ آزادی کی قدر کریں، یوم دفاع ہمیں بتاتا ہے کہ آزادی کی حفاظت کرنے کے لیے قیمتی جانوں کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ یوم دفاع صرف فوجی افسران اور جوانوں کی قربانیوں کو منانے کا نام نہیں ہے یہ درحقیقت پاکستان کے ہر شہری کا دفاع وطن کے لیے تجدید عہد کا نام ہے۔ انیس سو پینسٹھ میں ہماری بہادر ، غیور اور ملک کے لیے قیمتی جانیں قربان کرنے کے جذبے سے سرشار افواج نے ہر محاذ پر دشمن کے دانت کھٹے کیے، مکار دشمن کو منہ کی کھانا پڑی، مکار دشمن کو ہر محاذ پر پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ وہ دشمن جو لاہور جمخانہ میں چائے پینا چاہتا تھا اسے بھاگتے ہوئے پانی کی ہوش بھی نہ رہی۔ پاکستان کی فوج نے ہمیشہ ملکی دفاع کے لیے قربانیاں دی ہیں ، پاکستان کے لوگوں نے ہر مشکل وقت میں اپنی فوج کا ساتھ دیا ہے اور ہماری فوج ہر مشکل وقت میں اپنے لوگوں کی مدد کے لیے سب سے آگے ہوتی ہے۔ ہمارا دشمن آج بھی وہی ہے، ہمارے دشمن نے آج تک یعنی ہمارے ازلی دشمن بھارت نے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ بھارت مختلف طریقوں سے پاکستان میں امن و امان کو خراب کرنے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔ پاکستان میں دفاعی اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہمیشہ ایسی سازشوں کا مقابلہ کیا ہے۔ بھارت کو ان دنوں بھی بہت تکلیف ہو رہی ہے اور وہ روایتی مکارانہ انداز میں پاکستان میاں امن و امان خراب کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ دو روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر نے لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے پاکستان کے دشمنوں سے کہا ہے کہ اگر ہمت ہے تو سامنے آئو اور مقابلہ کرو۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے یہ بیان پاکستان کے ان دشمنوں کے لیے ہے جو سامنے آنے کی جرات نہیں رکھتے۔ دشمن اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ اسے منہ توڑ جواب ملے گا اور ایسا جواب ملے گا کہ اس کی نسلیں یاد رکھیں گی۔ پاکستان نے ایسا ہی جواب انیس سو پینسٹھ میں بھی دیا تھا اور اس کے بعد بھی جب جب دشمن نے حد عبور کی اسے منہ کی کھانا پڑی۔ ابھی نندن کا طیارہ گرا کر اسے حراست میں لے کر شاندار چائے پلا کر اچھا ہمسایہ ہونے کے ناطے پاکستان نے ابھی ابھی نندن کو رہا بھی کر دیا تھا۔ کیا بھارت کو ابھی نندن والا واقعہ یاد نہیں ہے۔ آج بھی بھارت اس تکلیف کو ضرور محسوس کرتا ہے لیکن سامنے آ کر حملہ کرنے کے بجائے کرائے کے قاتلوں پر اکتفا کیے ہوئے ہے اور ان کرائے کے قاتلوں کو روزانہ کی بنیاد پر افواج پاکستان، رینجرز اور پولیس کے جوان جہنم واصل کیے جا رہے ہیں۔ بھارت خود سامنے آ کر لڑنے کی ہمت نہیں رکھتا لیکن بزدلانہ کارروائیوں میں مصروف ہے۔ افغانستان کی حکومت کو یہ دیکھنا چاہیے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی حمایت کرتے ہوئے ہر مشکل وقت میں ان کے ساتھ تعاون بھی کیا ہے لیکن اگر آج اس اہم موقع پر جب دنیا میں ڈیجیٹل دہشتگردی عروج پر ہے، افغانستان کی سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ہونا دونوں ملکوں میں پائیدار امن کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ فوجی جوان سرحدوں پر ہماری حفاظت کے لیے ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں، ہم سوتے ہیں وہ جاگتے ہیں، ہم آرام کرتے ہیں وہ تکلیف میں ہوتے ہیں، ہم سخت موسم میں ٹھنڈے یا گرم کمروں میں ہوتے ہیں فوجی جوان ہمارے آرام کے لیے اپنی نیند قربان کرتے ہیں، اپنا آرام قربان کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے دفاع کو مضبوط بنانا ہے، دشمنوں کا ہر محاذ پر مقابلہ کرنا ہے اور اپنے ہر دشمن کو شکست دینی ہے۔ 

بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی عدم برداشت کے ماحول میں جس انداز میں نوجوان نسل نے آزادی جیسی بڑی نعمت کو معمولی سمجھ کر ملک کا مذاق بنایا ہے، اس بڑی نعمت کی بے قدری کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر، فلسطین یا اس قسم کی اور مثالوں کو نظر انداز کیا ہے۔ کاش پاکستان میں حقیقی آزادی کا نعرہ لگانے والے فلسطینیوں کی تباہ حال عمارات، شہادتوں کی تعداد، زخمیوں کی بے بسی دیکھیں، کاش وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت کو دیکھیں، فلسطین میں مسجد اقصٰی کی بے حرمتی فلسطینی مسلمانوں سے برداشت نہیں ہوتی، مقبوضہ کشمیر میں نماز جمعہ اور محرم کے جلوسوں پر لاٹھی چارج ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہر معاملے میں قید نے مسلمانوں کے لیے زندگی مشکل بنا دی ہے۔ کیا آج اپنے ملک سے ناراض اور نام نہاد حقیقی آزادی کا نعرہ لگانے والوں کا اس چیز ذرہ برابر بھی احساس ہے۔ یقینا نہیں ورنہ وہ کبھی اس سوچ کو نہ پھیلاتے ۔ پاکستان میں رہنے والوں کروڑوں لوگوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ آزادی کی قدر کریں اور اس عظیم نعمت کی حفاظت کو یقینی بنانے والوں کا شکریہ ادا کریں۔ اپنی آزادی کی قدر کریں، یہاں مذہبی معاملے میں کوئی روک ٹوک نہیں آپ ہر حوالے سے آزاد ہیں ، یہاں تو آپ اتنے آزاد ہیں کہ قانون توڑنے پر بھی بچ جاتے ہیں، اپنی مرضی سے سوتے جاگتے ہیں، کام کرتے ہیں، آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ہیں۔ گھومتے پھرتے ہیں پھر ہر وقت اپنے ملک سے ناراض رہنا ناشکری ہے۔ ذرا تصور کریں آزاد نہ ہوتے تو کیا ہوتا۔ 
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کہتے ہیں کہ ڈیجیٹل دہشتگردی اور ففتھ جنریشن وار روایتی دہشتگردی کے برعکس زیادہ خطرناک اور پیچیدہ ہے لیکن جب تک ہم متحد رہیں گے دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ چھ ستمبر تاریخ میں یوم دفاع وطن کے نام سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن افواج نے دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملائے تھے۔
جنگ ستمبر کے موقع پر قومی یکجہتی کا جذبہ ہمارے لیے سرمایہ افتخار ہے، قومی اتحاد و یکجہتی کے جذبے سے سرشار افواج سرحدوں کا تحفظ کر رہی ہیں، معرکہ ستمبر میں افواج کا جرات و بہادری کا مظاہرہ آئندہ نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ شہداء ہمارے لیے مقدم ہیں، شہداء اور ان کے اہل خانہ کی حرمت و حفاظت کی ذمہ داری بطریق احسن انجام دینا جانتے ہیں، ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ دشمنوں سے نمٹنے کیلئے ہمارا بڑا ہتھیار ہیں۔
 دہشتگردی کے عفریت کو بہادری اور جواں مردی سے افواج نے قابو کیا، فورسز، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کاوشوں سے آج پاکستان محفوظ ہے۔ وطن کی سلامتی اور خوشحالی کے عزم کے ساتھ عہد کریں کہ ہم متحد رہیں گے، اختلافات بھلا کر مثالی یکجہتی اور ہم آہنگی کا مظاہرہ کریں گے، جب تک ہم متحد رہیں گے دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
آج ہمیں ماضی سے زیادہ اتحاد کی ضرورت ہے۔ قوم کو آزادی کی قدر سیکھنا ہو گی۔ سیاسی قیادت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ سیاسی اختلافات میں اس حد تک آگے نہ جائیں کہ قومی ذمہ داری ہی بھول جائیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ افواج پاکستان ملک بھر سے دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ملک میں پائیدار امن کے لیے قربانیاں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ دفاعی ادارے اپنا کام کر رہے ہیں قوم کو بھی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔
آخر میں کلیم عاجز کا کلام
ہر چند غم و درد کی قیمت بھی بہت تھی
لینا ہی پڑا دل کو ضرورت بھی بہت تھی
ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی
مجبور تھے ہم اس سے محبت بھی بہت تھی
گو ترک تعلق میں سہولت بھی بہت تھی
لیکن نہ ہوا ہم سے کہ غیرت بھی بہت تھی
اس بت کے ستم سہہ کے دکھا ہی دیا ہم نے
گو اپنی طبیعت میں بغاوت بھی بہت تھی
واقف ہی نہ تھا رمز محبت سے وہ  ورنہ
دل کے لیے تھوڑی سی عنایت ہی بہت تھی
یوں ہی نہیں مشہور زمانہ مرا قاتل
اس شخص کو اس فن میں مہارت بھی بہت تھی
کیا دور غزل تھا کہ لہو دل میں بہت تھا
اور دل کو لہو کرنے کے فرصت بھی بہت تھی
ہر شام سناتے تھے حسینوں کو غزل ہم
جب مال بہت تھا تو سخاوت بھی بہت تھی
بلوا کے ہم عاجز کو پشیماں بھی بہت ہیں
کیا کیجیے کم بخت کی شہرت بھی بہت تھی

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...