نیب ترامیم بحال

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف وفاقی حکومت سمیت دیگر انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کا 3 رکنی بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے اور نیب ترامیم بحال کردیں۔ عدالت عظمی نے تفصیلی فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران  ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ نیب ترامیم خلاف آئین تھیں۔ چیف جسٹس  کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس سید اظہر حسن رضوی پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے حکومت اور دیگر کی طرف سے دائر انٹرا کورٹ اپیلوں کا محفوظ فیصلہ جاری کردیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جب تک پارلیمنٹ کا بنا قانون آئین کی شقوں سے واضح طور پر متصادم نہ ہو اسے کالعدم نہیں کرنا چاہیے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آئین کی شقوں سے واضح متصادم قانون غیر آئینی قرار دے کر کالعدم نہیں کیا جاسکتا، سب سے پہلے یہ تعین کرنا ضرروی تھا کہ نیب ترامیم مفاد عامہ کے خلاف اور بنیادی حقوق سے متصادم ہیں، نیب ترامیم کالعدم کرنے کے اکثریتی فیصلے میں معاملے کو آئین کے ٹچ سٹون کے بجائے، ذاتی پیمانے اور معیار پر پرکھا گیا۔ اگر کسی قانون کی ایک سے زائد تشریحات ہوں تو اس تشریح کو اپنایا جائے گا جو قانون کے حق میں ہوگا، نیب ترامیم کے خلاف پٹیشن اور سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں، ترامیم غیر آئینی ہونے کے حوالے سے ہم قائل نہیں ہو سکے۔  ججوں کو اپنے حلف اور آئین وقانون کے مطابق چلنا چاہیے۔ اداروں کو ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔ فیصلہ 16 صفحات پر مشتمل  ہے جسے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے تحریر کیا ہے اور بینچ کے تمام ارکان نے اس سے اتفاق کیا ہے تاہم جسٹس اطہر من اللہ  نے الگ نوٹ میں  پرائیویٹ اپیلیں منظور کرلیں جبکہ وفاقی حکومت کی اپیل مسترد کرکے قرار دیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سیکشن 5 کے تحت وفاقی حکومت اپیل کی مجاز نہیں۔ جسٹس سید اظہر حسن رضوی نے اضافی نوٹ میں قرار دیا کہ وہ اپیلیں منظور کرنے کی اپنی وجوہات تحریر کریں گے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت تین رکنی بینچ عمران خان کی پٹیشن کی سماعت کا مجاز نہیں تھا، اکثریتی فیصلے میں نیب ترامیم کو آئین کے آرٹیکل 4,9,14,24 اور 25کے خلاف قرار دیا گیا لیکن وجوہات میں یہ نہیں بتایا گیا کہ نیب ترامیم کیسے مذکورہ آئینی شقوں کے خلاف ہے۔ فیصلے میں نیب ترامیم کے خلاف پٹیشن کی 18اگست 2023 کی سماعت کی جسٹس منصور علی شاہ کی اس رائے سے اتفاق کیا گیا کہ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواست کا فیصلہ نہیں ہوتا نیب ترامیم کے بارے میں مقدمے کو زیر التوا رکھا جائے تاہم سوال اٹھایا گیا کہ سید منصور علی شاہ کی رائے درست تھی تو کیا انہیں تین رکنی بنچ میں بیٹھ کر کیس سننا چاہئے تھا؟،کیا سید منصور علی شاہ نے اس رائے کے بعد خود کو بینچ سے الگ کیا؟ کیا دو جج کیس سن کر فیصلہ کرسکتے تھے؟۔ فیصلے کے آغاز میں نیب قانون کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف نے ایک جمہوری آئینی نظم کو باہر پھینک کر زبردستی اقتدار پر قبضہ کیا اور خود کو انتظامی و قانون سازی کے اختیارات تفویض کردیے۔ اقتدار میں آنے کے 34  دن بعد نیب آرڈیننس نافذ کیا  جس کے دیباچے میں کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے اور کرپشن میں ملوث افراد کے احتساب کو مقصد بتایا گیا لیکن جس طریقے سے قانون کا اطلاق کرکے اسے استعمال کیا گیا اس سے یہ تصور عام ہوا کہ نیب آرڈیننس سیاسی انتقام اور سیاسی انجینئرنگ کا آلہ ہے۔ پرویز مشرف نے اعلی عدلیہ کے ان ججز کو ہٹایا جنہوں نے غیر آئینی اقدام کی توسیع نہیں کی اور بہت ساروں کو  اقتدار میں شامل ہونے کا لالچ دیا، بہت لوگوں نے لالچ اور اقتدار کی شان وشوکت قبول کرکے، آئین پامال کرنے اور غیر قانونی و غیر جمہوری اقدمات میں ان کے ساتھی بن گئے۔ جب نیب ترامیم کے خلاف درخواست زیر سماعت تھی تو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023نافذ ہوگیا جس کے تحت یہ پابندی عائد کی گئی کہ آئین کی تشریح کے بارے میں آئینی درخواستوں کی سماعت کم ازکم سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بینچ کرے گا۔ چونکہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست میں بھی آئین کی شقوں سے تصادم کا پہلو اٹھایا گیا تھا اس لیے 18اگست 2023کو درخواست کی سماعت کے دوران بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے بالکل درست رائے دی۔  معاملہ زیر التوا رکھ کر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ کرنے کی بجائے نیب ترامیم پٹیشن پر 55سماعتیں کرکے 15ستمبر 2023کو فیصلہ صادر کیا گیا اور دو ایک  کے اکثریتی فیصلے کے تحت پٹیشن منظور کرکے نیب ترامیم کالعدم قرار دیدی گئیں۔ فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ کے اقلیتی فیصلے کا حوالہ بھی دیا گیا جس میں قرار دیا گیا کہ عدالت کو ہجوم کے ساتھ نہیں جانا چاہیے  بلکہ ہجوم کو چھوڑ کر اپنی آنکھیں جمہوریت کے مستقبل پر مرکوز کرنی چاہئیں، ججوں کو آج کی تبدیل ہوتے ہوئی سیاست سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے، عدالتوں کو سیاسی جماعتوں کی طرح عوام کی حمایت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، اگر عوام کے جذبات مخالف بھی ہوں تب بھی عدالتوں کو آئین وقانون کے مطابق فیصلے کرنے چاہیے، قانون اگر بنیادی حقوق اور آئین کی شقوں سے متصادم ہو تو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم کیا جاسکتا ہے۔ نیب ترامیم کالعدم کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف ہے، اکثریتی فیصلہ کرنے والے جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن اس بینچ کا حصہ تھے جس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر  ایکٹ کے خلاف درخواست پر سماعت کرکے اسے معطل کردیا تھا، لیکن قانون معطل کرنے  کے بعد کیس سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا جو عدالت کی روایت کے خلاف ہے کیونکہ جب ایک مقدمے کی سماعت شروع ہوجائیں تو پھر سماعت جاری رہنا چاہیے اس میں تعطل نہیں آنا چاہئے۔ قانون معطل ہونے کے بعد کیس 100دنوں تک سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا اور جب موجودہ چیف جسٹس نے ذمہ داریاں سنبھالیں تو کیس 18ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کردیا، اگر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر عمل ہوتا تو عدالت کا وقت اور عوام کے وسائل ضائع نہ ہوتے۔ محض بنیادی حقوق کا حوالہ دے کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ درخواست آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت  قابل سماعت ہے، قابل سماعت ہونے کے لیے واضح مواد کا ہونا لازمی ہے اور نیب ترامیم کو کالعدم کرنے کے فیصلے میں کہیں پر بھی یہ ذکر موجود نہیں کہ ترامیم کیسے آئین کی شقوں سے متصادم ہے۔ قانون سازی کو حکومت کے اقدامات کی تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے، حکومتی اقدامات اور قانون سازی مختلف چیزیں ہیں اور پارلیمنٹ کے بنائے قانون کو عزت کی نگاہ سے دیکھ کر اس پر عمل کرنا چاہیے، جب تک قانون کو آئین سے متصادم قرار نہ دیا جائے اسے کالعدم نہیں کیا جاسکتا لیکن بدقسمتی سے نیب ترامیم کیس میں اس بنیادی اصول کو دو مرتبہ نظر انداز کیا گیا، پہلا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے اجراء کے باجود سماعت جاری رکھنا اور دوسرا اکثریتی فیصلہ کرنے والے ججوں کا اپنی رائے کو پارلیمنٹ کے اجتماعی رائے سے بہتر قرار دینا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ سے بہتر قانون بنانے کی سوچ کی بنیاد پر عدالت کو پارلیمنٹ کا بنا قانون کالعدم کرنے کا اختیار نہیں ملتا۔ معاملہ آئین کی تناظر میں نہیں بلکہ ذاتی رائے کے معیار پر دیکھا گیا لیکن بہت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ آئین ذاتی رائے کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ کہنے کی ضرروت نہیں کہ جج حلف کے پابند ہیں اور انہیں اپنے حلف اور آئین وقانون کے مطابق چلنا چاہیے، کسی قانون کو اس وقت تک نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جب تک واضح مواد پر اسے آئین سے متصادم قرار دے کر کالعدم نہ کیا جائے، چونکہ نیب ترامیم کے خلاف پٹیشن میں آئینی پہلو کو اٹھایا گیا تھا اس لیے سب سے پہلے یہ طے کرنا لازمی تھا کہ ترامیم مفاد عامہ اور بنیادی حقوق سے متصادم ہیں۔ اکثریتی فیصلے میں تو یہ کہا گیا کہ ترامیم آئین کے شقوں سے متصادم ہیں لیکن کیسے ہیں اس کا ذکر نہیں، اسی ایک نکتے پر اپیلیں منظور کی جاسکتی ہیں اور اپیل کے باقی معروضات کو دیکھنے کی ضرورت نہیں جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں نیب ترامیم کی گئیں اور عمران خان کی پٹیشن بدنیتی پر مبنی تھی کیونکہ خود نیب آرڈیننس میں عمران خان کی ترامیم کو اس قانون میں شامل کیا گیا لیکن میرٹ پر بھی عمران خان کی پٹیشن قابل سماعت نہیں۔ قانون کو کالعدم کرنے کے بجائے بحال رکھنا چاہیے اور اگر کسی قانون کی ایک سے زیادہ تشریحات ہوسکتی ہو تو اس تشریح کو اپنانا چاہیے جو قانون کے حق میں ہو۔ آئین نے مقننہ اور عدلیہ کے کردار کو متعین کردیا ہے اور ہر ایک کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ اپنے متعین کردہ کردار کے مطابق عمل کرے اور دوسرے کے  دائرہ اختیار میں مداخلت سے گریز کرے۔ ادارے اس وقت بہتر طور پر عوام کی خدمت کرسکتے ہیں جب وہ ایک دوسرے کی عزت کریں اور آئین کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ چیف جسٹس کے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں۔ حکومتی اپیلیں پریکٹس پروسیجر قانون کے تحت قابل سماعت نہیں۔ حکومت کی انٹرا اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں۔ متاثرہ فریقین کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کی جاتیں ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کے اقلیتی فیصلے سے اس حد تک اتفاق ہے کہ ججز اور آرمڈ فورسز کے ارکان کو نیب قانون سے استثنیٰ حاصل نہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...