اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
سیرت سے مراد آپؐ کی حیات طیبہ کا ہر لمحہ ہے۔ جس میں اعلانِ نبوت سے پہلے اور بعد کے حالات دونوں ہی شامل ہیں۔ آپؐ کی زندگی کا ہر گوشہ، آپؐ کا کردار، عادات و اطوار، طرزِ زندگی، طریقہ برتائو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس لیے آپ کی ذاتِ گرامی کو قرآنِ ناطق کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اس سے زیادہ فخر کی بات نہیں ہو سکتی کہ مسلمان مؤرخین نے پیغمبرؐکے حالات اور واقعات حرف بہ حرف انتہائی جامعیت اور احتیاط کے ساتھ قلمبند کئے۔ مغربی مصنف فلپ نے لکھا ہے ’’محمدﷺ تاریخ کی پوری روشنی میں پیدا ہوئے ہیں‘‘۔
کسی بھی شخصیت کے مثالی ہونے اور آئیڈیل بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخصیت مجموعۂ خصائل ہو۔ رہنما، قائد و سپہ سالار ہو۔ مدبرو منصف، تاجر اور محنت کش خاندان کا مثالی سربراہ بھی ہو۔
آپؐ اس لحاظ سے تاریخ انسانی کی منفرد اور یکتا شخصیت ہیں کہ جن کی انفرادی، اجتماعی اور معاشرتی زندگی کے ایک ایک لمحے کو محفوظ کیا گیا ہے۔ سیرت کی کتابوں میں آپؐ کا قبیلہ، خاندان،ددھیال، ننھیال، آپؐ کی ولادت، رضاعت، قبل از نبوت کے واقعات، جوانی، شادی، نبوت کے بعد کے واقعات، خانگی و بیرونی زندگی ، عادات و خصائل، اخلاق نشست و برخاست، خورد نوش، اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، رفتار و گفتار، ارشادات، خرید و فروخت، معیشت و تجارت، ہمت و شجاعت، عسکری و جنگی تدابیر، معاہدات، صلح و جنگ، سخاوت، عفوو درگزر، تواضع و انکسار، خوش طبعی، قصّہ گوئی، فصاحت و بلاغت، تبسم و مزاح، خفگی کا اظہار، گریہ و فغاں، حسنِ مدارات اور شرم و حیا کی تفصیلات شامل ہیں۔
صرف اس پر ہی بس نہیں، سیرت نگاروں نے آپؐ کا حلیہ مبارک، خدوخال، داڑھی کی کیفیت، زلفوں کا تذکرہ، عبادات، نماز،روزہ، وصال، حج، زکوٰۃ، یہاں تک کہ ہم خوابی اور طہارت کے حالات، غرض بڑے سے بڑا واقعہ اور چھوٹی سے چھوٹی جزئیات ہم تک پہنچائی ہیں۔
اس شان کی سوانح عمری نہ کسی کی لکھی گئی، نہ ہی نسل در نسل اس طرح منتقل ہوئی۔ یہ ساری تفصیلات و جزئیات، احادیث، سیرت اور تاریخ کی کتابوں کے ذریعے دنیا کے ہر گوشے اور ہر خطے تک ہر زبان میں پہنچی ہیں۔ سیرتِ پاکؐ کو جاننے کے لیے قرآن سب سے اہم ماخذ ہے اور اس کی گواہی ہی کافی ہے۔ آپؐ کی سیرت کے دو پہلو ہیں ایک علمی اور دوسرا عملی۔ علمی پہلو قرآن پاک اور عملی پہلو احادیث میں ملتا ہے۔
آپﷺ افض ترین تھے۔ خدا نے آپؐ کو اپنا محبوب کہا ہے۔ نبیوں میں آپؐ کا رتبہ سب سے اونچا، سب سے اعلیٰ ہے۔ ہمارا یمان ہے نبی کریمؐ ہی اللہ کے آخری نبی ہیں۔ دعا ہے ہماری سانسوں کا خاتمہ نبی پاکؐ کا کلمہ پڑھتے ہوئے ہو۔ روزِ محشر محمدؐ ہمارے لیے نجات کا ذریعہ بن جائیں۔
الحمد للہ ، ختم نبوت ہم مسلمانوں کا ایمان اور ہمارے عقیدے کا اہم ترین جزو ہے اور ایسا اس لیئے ہے کہ قرآن کریم کی سینکڑوں آیات اور دو سو سے زائد احادیث ثابت کرتی ہیں کہ محمد ﷺ اللہ کے آخری بنی ہیں ان کے بعد بنوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیالیکن کچھ بد بخت خود کو بنی ظاہرکرتے ہیں اور یہ سلسلہ حضور بنی اکرم ﷺکی حیاب مبارکہ سے ہی شروع ہوگیا تھا اور آج تک کسی نہ کسی صورت جاری ہے لیکن ہر دور میں ان جھوٹوں اور کذابوں کو مسلمانوں نے اپنے جذبہ ایمانی کے ساتھ ہر میدان میں شکست فاش دی ۔
انہی جھوٹوں میں ایک مرزا غلام احمد قادنی ہے جس نے مارچ 1889میں اپنی جھوٹی جماعت کی بنیاد رکھی اور خود کو کبھی بنی ،کبھی خدا،کبھی عیسی ، کبھی مجدد، کبھی مہدی،کبھی اوتار،کبھی کرشن اور کبھی خدا کا بیٹا ظاہر کیا اس کی وفات کے بعد اب تک پانچ جھوٹے اس جماعت کے خلیفہ بن کر اپنے ملعون عقائد کی ترویج کرچکے ہیں ان میں پہلا حکیم نورالدین ملعون،دوسرا مرزا بشیر الدین محمود ملعون، تیسرامرزا ناصرالدین ملعون ،چوتھا مرزا طاہر احمد ملعون اورپانچواں اورموجودہ مرزا مسرور احمد ملعون شامل ہیںجو 2003سے کذب بیانی کررہا ہے۔
مسلمانان ہند مارچ 1889سے آج تک اور مجموعی طورپر دنیا بھر کے مسلمان اس فتنے سے برسرپیکار ہیںلیکن پاکستان کے مسلمانوں کو حقیقی کامیابی ستمبر 1974کو جب انجمن طلبا اسلام سمیت تما م مذہبی جماعتوں اور مسلم شہریوں کی کوششوں اور تگ ودو سے قومی اسمبلی نے آئین میں دوسری ترمیم کرکے آرٹیکل 106آرٹیکل 260کے تحت قادیانیوں کو کافر قرار دیتے ہوئے بل پاس کردیا اور قرار دیا کہ جو شخص محمد ﷺ کو اللہ کاآخری بنیﷺ نہیں مانتا یا خود کو نبی قرار دیتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے بلکہ کافر ہے یہ دن بلاشبہ ایک تاریخی دن تھا اور یہ کامیابی خطے کے مسلمانوں کے لیے بہت بڑی کامیابی تھی۔اگرچہ قادیانیوں کو پاکستان میں کافر قرار دیدیا ہے لیکن قادیانی پھر بھی خود کو مسلمان کہتے اور اپنے جھوٹے دین کی ترویج و اشاعت میں ڈھکے چھپے انداز میں مصروف ہیں جس کی ایک مثال 6دسمبر 2022کو چنیوٹ کے محمد حسن معاویہ نامی شخص کی درخواست پر تھانہ چناب نگر میں مبارک ثانی نامی پرنسل ،مدرستہ الحفظ، عائشہ اکیڈمی ومدرستہ البنات اور مرزامسرور قادیانی کی بڑی بہن امت القدوس خالد احمد شاہ ناطر اعلی او دیگر کے خلاف درج ہونے والا مقدمہ ہے جس میں بیان کیا گیا کہ الزام علیہان 7مارچ 2019کو نصرت جہاں کالج فارویمن کی گروانڈ میں ،مدرستہ الحفظ، عائشہ اکیڈمی ومدرستہ البنات کی ایک تقریب کے 62بچوں میں تحریف شدہ قرآن پاک کی تفسیر صغیرنامی کتاب تقسیم کی جو کہ نہ صرف پاکستان کے آئین اور قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ جرم بھی ہے مذکورہ ایف آئی آر کی روشنی میں مبارک ثانی نامی ملزم کو گرفتار کرلیا گیا اور اس کی ضمانت ہر فورم سے مسترد ہوتی سپریم کورٹ جاپہنچی جہاں مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں دورکنی بینج نے مبارک ثانی کی درخواست ضمانت منظور کرلی اور اس کیس میں ختم نبوت کی اپنے ہی انداز میں تشریح کرڈالی جس سے قادیانیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انہیں لگا شاید 50برس بعد انہیں دوبارہ ـ" مسلمان " کا سٹیٹس ملنے کو ہے لیکن قاضی فائز عیسی کے اس فیصلے پر شدید ردعمل آیا اور ملک کے طول و عرض میں چیف جسٹس کے خلاف مظاہر ے شروع ہوگئے اور بلاآخر چیف جسٹس کو اپنا غلط فیصلہ واپس لینا پڑا۔
پھر یکم ستمبر2024کو انجمن طلبا اسلام نے قادیانیوں کو کافر قرار دیئے جانے کے50برس مکمل ہونے پر ایکبار پھر سے کراچی سے ٹرین مارچ کیا اور چنیوٹ پہنچے جہاں مقامی پولیس کی بہترین حکمت عملی سے کوئی ناخوشگوار واقع پیش نہ آیا اور طلبا نے "کافر "کی گولڈن جوبلی بھی منا لی۔