قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری دی گئی۔ تین سوبیالیس ارکان کے ایوان میں سے دوسو بانوے ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا جبکہ دوتہائی اکثریت کے لئے دو سو اٹھائیس ارکان کی حمایت درکار تھی۔ ترمیم کی مخالفت میں کسی رکن نے بھی ووٹ نہیں ڈالا۔ نئی ترمیم کے تحت صدر اب تمام امور میں وزیراعظم کی مشاورت کے پابند ہوں گے، وہ اسمبلی نہیں توڑ سکیں گے، یہ اختیار وفاق میں وزیراعظم اور صوبوں میں وزرائے اعلیٰ استعمال کریں گے جبکہ ایمرجنسی لگانے کا صدارتی اختیار بھی قومی اسمبلی کو منتقل ہوگیا ہے۔ مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرر بھی اب وزیراعظم ہی کریں گے۔ دوسری طرف شق چودہ کے تحت وزیراعظم اہم داخلی اور خارجی معاملات پر اور وفاقی حکومت کی قانون سازی کی تجاویز پر صدرکو باخبر رکھنے کے پابند ہوں گے۔ شق پندرہ کے تحت وزیراعظم کو ریفرنڈم کیلئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظوری لینا ہوگی اور اسمبلی تحلیل کرنے کی صورت میں فوری طور پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا ہوگا۔ قومی اسمبلی نے تیسری بار وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بننے پر پابندی ختم کردی۔ ایوان نے کثرت رائے سے آئین کو معطل کرنے، اسے توڑنے اور ان امور میں مدد فراہم کرنے والے کو قومی مجرم قرار دینے کی منظوری قراردے دی۔ سپریم کورٹ بھی اب نظریہ ضرورت کے تحت کسی آمر کو تحفظ نہیں دے سکے گی۔ ججوں کی تقرری کے نئے طریقہ کار کی منظوری دیتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا فیصلہ کیا گیا، کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے۔ قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے لیگل فریم ورک آرڈر دو ہزار دو اور سترہوریں ترمیم کو ختم کرکے صدر مشرف کے تمام اقدامات کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ آٹھویں ترمیم سے ملک کو صدراتی نظام کی جانب لے جانے والے جنرل ضیاء الحق کا نام بھی اب آئین کا حصہ نہیں رہا۔ ایوان نے کثرت رائے سے صوبہ سرحد کا نیا نام خیبرپختون خواہ منظور کرلیا، اس شق کے حق میں دوسو چونسٹھ اورمخالفت میں بیس ووٹ ڈالے گئے۔ چیف الیکشن کمشنر کے تقررمیں قائد ایوان کو قائد حزب اختلاف کی مشاورت کا پابند بنایا گیا ہے۔ ایوان نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل اور سیکرٹریٹ کے قیام اور قومی اقتصادی کونسل بنانے کی بھی منظوری دے دی۔ قومی مالیاتی کمیشن میں صوبوں کا حصہ نہیں کیا جاسکے گا۔ گورنرکی عدم موجودگی میں سپیکر ان کی جگہ فرائض انجام دیں گے، صوبے کا گورنر مقامی شخص ہوگا۔ اٹارنی جنرل کو پرائیویٹ پریکٹس سے منع کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس اکیس روزمیں طلب کیاجائیگا۔ قومی اسمبلی نے پانچ سے سولہ سال کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی اور معلومات تک رسائی کو بنیادی حق قراردے دیا۔ کابینہ کی تعداد کا تعین کردیا گیا۔ سینیٹ کے ارکان کی تعداد ایک سو سے بڑھا کر ایک سو چار کردی گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سبی، مینگورہ اورایبٹ آباد میں ہائی کورٹس کے بینچ قائم ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں میں انتخابات کی پابندی ختم کردی گئی۔