نگران وزیر داخلہ کا مختلف سیاسی قائدین کو دہشت گردی سے نقصان پہنچنے کے امکان کا عندیہ اور فوج کے کردار پر تحفظات
اسلام آباد میں منعقدہ وفاقی وزارت داخلہ کے اجلاس میں گزشتہ روز ملک کی امن و امان کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وفاقی وزیر داخلہ ملک حبیب نے کہا کہ میاں نوازشریف اور عمران خان سمیت اہم سیاسی قائدین کی زندگیوں کو دہشت گردی سے خطرات لاحق ہیں۔ سیاسی رہنماﺅں کو سکیورٹی دینے کیلئے درجہ بندی کرکے تمام آئی جیز اور ہوم سیکرٹریوں کو فول پروف سکیورٹی دینے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ انکے بقول کسی بھی اہم شخصیت کو نشانہ بنائے جانے سے انتخابی عمل متاثر ہوسکتا ہے۔ اہم پولنگ سٹیشنز پر فوج تعینات ہوگی مگر ہر پولنگ سٹیشن پر فوج کی تعیناتی درست نہیں۔ ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق نگران وزیر داخلہ نے اس امر کا بھی اظہار کیا کہ حکومت کے احکامات پر عملدرآمد نہیں ہورہا اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ انکے بقول نگران سیٹ اپ کے احکام پر عملدرآمد میں بیوروکریسی رکاوٹ ہے اور تقرریوں تبادلوں کے احکامات پر بھی عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ پرامن اور شفاف انتخابات کیلئے فول پروف سکیورٹی فراہم کرنا حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ نگران حکومت پرامن انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کیلئے ہرممکن اقدامات کریگی۔ بی بی سی کی خصوصی رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ کے اجلاس میں پولنگ سٹیشنوں پر فوجی اہلکار تعینات کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلہ پر تحفظات کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ کسی بھی پولنگ سٹیشن پر انتخابات کے دوران ممکنہ دھاندلی کی صورت میں فوج پر بھی انگلیاں اٹھ سکتی ہیں۔
انتخابات کے متعینہ شیڈول کے مطابق مقررہ میعاد کے اندر پرامن ماحول میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انتظامات کرنا ہی نگران سیٹ اپ کی اصل ذمہ داری ہے کہ اسکی تشکیل انتخابات کے انعقاد تک کے عبوری عرصہ کیلئے عمل میں آئی ہے جبکہ انتخابات کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانا براہ راست وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے۔ اگر اس وزارت کے نگران وزیر کی جانب سے یہ بیان دیا جائے کہ بعض اہم سیاسی قائدین کو دہشت گردی سے خطرہ لاحق ہے اور کسی بھی اہم شخصیت کے نشانہ بننے سے انتخابی عمل متاثر ہوسکتا ہے تو یہ درحقیقت شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے سازگار اور پرامن ماحول میسر کرنے کے معاملہ میں نگران سیٹ اپ کی ناکامی کا اعتراف ہوگا جبکہ بعض سیاسی شخصیات کی زندگیوں کو دہشت گردی سے خطرہ کاعندیہ دینا انتخابی سیاسی عمل میں شریک جماعتوں اور قائدین کو خوفزدہ کرنے کے مترادف ہے جس سے بادی النظر میں اس تاثر کو تقویت مل سکتی ہے کہ انتخابات کے التواءکی گنجائش موجود ہے۔جس کے بارے میں پہلے ہی نگران سیٹ اپ کے بعض اقدامات کے حوالے سے چہ میگوئیاں جاری ہیں۔ اس نوعیت کی چہ میگوئیوں کا راستہ بھی نگران وزیر داخلہ نے غلطی سے ادا کئے گئے اپنے ان الفاظ کی بنیاد پر نکالا تھا کہ نگران سیٹ اپ تین سال کیلئے قائم ہوا ہے۔ اب امن و امان کے حوالے سے انکے بیان سے انتخابات کے بروقت انعقاد کے معاملہ میں مزید قیاس آرائیوں کو ہوا ملے گی اسلئے نگران وزیر داخلہ کو اپنے منصب کی ذمہ داری کے احساس کرتے ہوئے کوئی بھی بیان دینے سے پہلے اسکے ممکنہ اثرات اور ردعمل کا ضروری جائزہ لینا چاہئے، یہ حکومتی منصب ان سے ذمہ داری کا بھی متقاضی ہے جبکہ انہوں نے یہ بیان دیکر پورے نگران سیٹ اپ کی سبکی کا اہتمام کیا ہے کہ بیوروکریسی حکومت کے احکامات پر عمل نہیں کررہی۔
الیکشن کمیشن نے تو پرامن ماحول میں شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے افواج پاکستان کی معاونت حاصل کی جس کی کورکمانڈرز کانفرنس میں توثیق بھی کردی گئی اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا گزشتہ ہفتے کا دورہ¿ بلوچستان اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔ نگران وزیر داخلہ کی زیرصدارت منعقدہ وزارت داخلہ کے اجلاس میں انتخابات کے پرامن انعقاد کیلئے فوج کے متعینہ کردار پر تحفظات اوربطور ادارہ افواج پاکستان کے انتخابی عمل کے درمیان فاصلہ رکھنا آئینی تقاضوں کے مطابق سول حکومت اور افواج کے رول کے جہاں مطابق ہے،وہاں یہ بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ حساس پولنگ سٹیشنوں پر افواج ہی تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔
انتخابات کے انعقاد کے معاملہ میں سٹیک ہولڈرز کے مابین خوف و ہراس اور مایوسی کی فضا پیدا کرکے انتخابات کے التواءکے خدشات سے بچنے کیلئے نگران وزیراعظم کی جانب سے وضاحت سامنے آنی چاہئے تاکہ نگران وزیر داخلہ کے متضاد بیانات سے انتخابات کے بروقت انعقاد کے معاملہ میں پیدا ہونیوالے شکوک و شبہات دور ہوسکیں اور تمام متعلقہ سیاسی جماعتیں اور ووٹرز یکسو ہو کر انتخابی عمل میں شریک ہوسکیں۔
جہاں تک ملک میں امن و امان کی صورتحال کا معاملہ ہے، اسے کسی صورت مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا، بالخصوص کراچی میں آج بھی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ اسی بے رحمی کے ساتھ جاری ہے جبکہ خیبر پی کے اور بلوچستان میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں جاری ہیں، مگر کیا اس صورتحال کو جواز بناکر انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کرلیا جائے؟ اگر ایسا ہی کرنا ہوتا تو اسمبلیوں کی تحلیل سے پہلے ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش تھی اور کوئٹہ، کراچی اور پشاور میں سفاکانہ دہشت گردی کے یکے بعد دیگرے واقعات رونما ہورہے تھے۔ اگر سبکدوش ہونیوالی حکومت چاہتی تو امن و امان کی خرابی کا بہانہ کرکے کسی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اسمبلیوں کی میعاد سال چھ مہینے کیلئے آسانی سے بڑھا سکتی تھی جبکہ اس کیلئے ایسے کسی آرڈیننس کی پارلیمنٹ سے توثیق کرانا بھی کوئی مشکل مرحلہ نہ ہوتا مگر سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن نے جمہوریت کے تسلسل کی خاطر یکسو ہو کر ایسی کسی سوچ کو پروان نہ چڑھنے دیا اسلئے اگر منتخب جمہوری حکومت اپنے مقاصد کی خاطر انتخابات کے التواءکی خواہش پوری نہیں کرسکی تو نگران حکمرانوں کو اپنے اقتدار کی طوالت کی خاطر ملک کو جمہوریت کی منزل سے دور لے جانے کی کیسے اجازت دی جاسکتی ہے۔
نگران سیٹ اپ کی ذمہ داری پرامن اور شفاف انتخابات کرانے کی ہے تو اس کیلئے اسے بلارورعائت سٹیٹ اتھارٹی کو بروئے کار لاکر ملک کے ہر اس مقام پر قیام امن کو یقینی بنانا چاہئے جہاں ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق انتخابی عمل کے دوران کسی قسم کی دہشت گردی یا تخریب کاری کا خدشہ موجود ہے۔اگر شدت پسند تنظیموں کی جانب سے انتخابی عمل کے دوران کسی قسم کی گڑبڑ نہ کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے تو پھر نگران وزیر داخلہ کی بیان کردہ ممکنہ دہشت گردی کے خلاف کیا ایکشن لیاجارہا ہے؟اسکا بھی نگران وزیر داخلہ کو ہی بہتر علم ہوگا اسلئے انکے پاس جس بھی نوعیت کی دہشت گردی کی اطلاعات ہیں وہ اسکے قلع قمع کیلئے امن نافذ کرنے کی ذمہ دار ایجنسیوں کو حرکت میں لائیں اور انتخابی شیڈول کے مطابق انتخابات کے پرامن انعقاد کو یقینی بنائیں۔ انہیں انتخابی عمل کے حوالے سے کسی قسم کا ابہام یا خوف و ہراس پیدا کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔