جماعت اسلامی پاکستان اپنے مرکزی امیر کا انتخاب ہر پانچ سال کے بعد پوری باقاعدگی کے ساتھ کراتی رہی ہے۔ اس بار جناب سراج الحق کا اعلان ہوتے ہی یہ انتخاب ایک عوامی موضوع بن گیا۔ انتخابی نتیجہ میں میڈیا کی یہ دلچسپی قابل اعتراض تو بالکل نہیں البتہ دو طرفہ تفہیم کی متقاضی ہے۔ جماعت اسلامی کے لیے قابل غور بات یہ ہے کہ جماعت سے باہر کے حلقے اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کم از کم صف اول کے لکھاریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جماعت سے اتفاق کریں یا اختلاف لیکن کم از کم اس کو اس طرح سمجھیں جیسا کہ وہ ہے۔ اس معاملہ میں دقت یہ ہے کہ جماعت کے باہر بیٹھے لوگ جماعت اسلامی کی فکر، تنظیم اور طریقہ کار کو جانے بغیر محض اصطلاحات کی مماثلت کی بناء پر جماعت کے سانچے، ڈھانچے اور تصورات پر اسی طرح تبصرہ آرائی کرتے ہیں جو دیگر تمام جماعتوں میں رائج ہیں۔ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ہمارے مبصرین کا تاریخ اور کتاب سے رشتہ ٹوٹ چکا ہے اور بریکنگ نیوز اور رواں اخبارات کی سرخیاں ہی تصورات میں رنگ بھرتی ہیں۔ زیر نظر مضمون دراصل فہم و ادراک کی غلطیوں کو دور کرنے کی ایک کوشش ہے۔ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔
یہ بات تو خوش آئند ہے کہ تمام ہی مبصرین نے جماعت اسلامی کے انتخابات کے عمل کو سراہا ہے۔ جماعت کے نظام کو دستوری اور جمہوری طرز کی بہترین قابل تقلید مثال قرار دیا ہے۔ اتنی بڑی اور دو ٹوک دلیل کے بعد جماعت کے حوالے سے اس بے جا تشویش کا خاتمہ ہو جانا چاہیے جو جماعت کو دعوتی اور جمہوری تنظیم کے بجائے جہادی یا طالبانی پیرا ڈائم کے نام سے پھیلائی جاتی ہے۔ جہاں تک سید منور حسن کی پالیسی اور اسلوب سے اختلاف کا معاملہ ہے تو یہ ہر امیر جماعت کے ساتھ رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے بانی اسے جماعت اسلامی کی امتیازی صفت اور زندگی کی علامت کے طور پر بیان کرتے تھے۔ انگوٹھا چھاپ کلچر میں جماعت اسلامی اسے حریت فکر اور آزادیٔ اظہار کے طور پر پیش کرتی ہے، لیکن اختلاف اور اضطراب میں مبتلا جماعت کے ارکان اسے انا پرستی اور مفاد پرستی سے بالاتر مانتے ہیں۔ یہ اختلافات فہم و استنباط سے لیکر تدابیر اور پالیسیوں کے دائروں تک محدود رہتے ہیں۔ انکی بنیاد پر دھڑے بندی، گروپنگ اور عہدوں کی تقسیم کبھی بھی نہیں ہوئی۔ محترم قاضی حسین احمد کے دوسرے انتخاب کے موقع پر اسی قسم کے اختلافات کو خوب اچھالا گیا تھا۔دراصل ارکان جماعت ہر سطح کے انتخابات کو کسی شخصیت کی فتح و شکست سے بالاتر جانتے ہیں۔ بانیان جماعت اسلامی نے جماعت کی تشکیل میں شخصی بیعت کے بجائے دستوری بیعت کے تصور کو رائج کیا۔ جماعت کے اندر تمام پالیسیاں، مباحث، اختلافات اور طریقہ کار بالاآخر دستور جماعت کے دائرے میں آکر متفق علیہ ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا جماعت کے اندر نہ کوئی انقلاب پروان چڑھتا ہے اور نہ ہی کوئی بغاوت سر اٹھاتی ہے۔ لہٰذا جب جماعت اسلامی کے ایک حلقے سے مرکز تک دن رات کام کرنے والی قیادت کئی چھلنیوں سے چھن چھن کر ارکان کے سامنے آتی ہے تو سوال صحیح اور غلط کے انتخاب کا نہیں ہوتا بلکہ عصر حاضر کے چیلنج میں مناسب اور مناسب ترین کا بن جاتا ہے۔ ارکان جماعت اپنی بصیرت کی بنیاد پر رائے بناتے ہیں کہ مرحلہ موجود کی ضروریات کی تکمیل کس فرد کے ذریعے ممکن ہیں۔بعض اخباری مبصرین نے شوریٰ کی سفارش کردہ تین ناموں پر بحث کرتے ہوئے بھی بعض غلط نتائج اخذ کیے ہیں۔ سفارش کردہ نام تین ہوں یا پانچ، بننا تو کسی ایک نے ہے۔ اب جو نہیں بنا اس پر بے تکے اعتراض محل نظر ہیں۔ راقم الحروف 1977ء سے جماعت کے معاملات کا طالب و شاہد ہے۔ 1977ء سے موجودہ انتخابات تک جو لوگ امارت کے منصب پر فائز نہیں ہوئے ان میں مولانا جان محمد عباسی، پروفیسر غفور احمد، پروفیسر خورشید احمد پر لمحہ بھر کے لیے بھی غور کریں تو حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ معاملہ فتح و شکست کا نہیں ہے۔ بقول اقبال …ع
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی