نو ماہ کے بچے کیخلاف ایف آئی آر

لاہور ایسے ترقی یافتہ شہر میں نو ماہ کے ایک ننھے پھول موسیٰ کے خلاف ایف آئی آر کٹ جانا اور پھر عدالت کا بچے کو ضمانت پر رہا کر دینے کا واقعہ واقعی ایک خبر ہے کیونکہ پولیس کی بے حسی جہالت لا پرواہی ، بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے قصے زبان زدعام ہیں اور ایک متفقہ تاثر موجود ہے کہ ہماری سوسائٹی میں ہونے والے جرائم پولیس کی سرپرستی اور آشیر بار کے بغیر ممکن نہیں جس طرح میرا ایمان ہے کہ کسی بینک وغیرہ میں فراڈ اور ڈکیتی کی واردات بینک کی چند کالی بھیڑوں کو ساتھ ملائے بغیر ممکن نہیں اس طرح میرا دعوی ہے کہ ہماری سوسائٹی میں کوئی بھی جرم پولیس کی مرضی و منشاء کے بغیر نا ممکن ہے میں یہاں صرف شہر لاہور کی پولیس ہی کو موردالزام نہیں ٹھہرا رہا بلکہ سچ یہی ہے کہ پورے پاکستان کی پولیس جرائم کی ماں ہے لیکن نو ماہ کے موسیٰ کے خلاف ایف آئی آر کٹ جانا اور مقامی عدالت کے جج کا بچے کو ضمانت پر رہا کرنا بے شمار سوالات چھوڑ گیا ہے مجھے پولیس کی نسبت زیادہ دکھ مقرر جج پر ہے کہ انہوں نے بچے کی ضمانت لینے کی بجائے ایف آئی آر کاٹنے والے پولی افسروں اور اہلکاروں کے خلاف ایکشن کیوں نہ لیا۔ کیا مجبوری تھی ضمانت کے کاغذات پر معصوم کے انگوٹھے لگوانے کی۔ انہوں نے موقع پر موجود پولیس اہلکاروں کی لرزنش کیوں نہ کی۔ پرچہ خارج کیوں نہ کیا اسی لئے تو مذکورہ واقعہ کی صدائے باز گشت آج بھی سنی جا رہی ہے اور عوامی حلقوں کی طرف سے مسلسل لعن طعن کی جا رہی ہے بظاہر تو وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور پولیس حکام نے اس مکروہ واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے مگر اعلیٰ عدالتیں کیوں خاموش ہیں۔
مشاہدہ بتاتا ہے کہ جوں جوں ہمارے اداروں کی سہولتوں اور مراعات میں اضافہ ہوا جرائم بڑھتے گئے۔ وہ کتنا اچھا دور تھا جب پولیس اہلکار جرائم کی تلاش میں میلوں پیدل چلا کرتے تھے ان کے پاس نئی نئی گاڑیاں ڈالے اور جدید اسلحہ نہیں ہوتا تھا اور مجھے کہنے دیجئے کہ ان دنوں جرائم کی شرح اس قدر کم تھی کہ کسی جرم کے ارتکاب کا واقعہ شاذر و نادر ہی سننے اور پڑھنے کو ملتا تھا۔ سہولتیں اور مراعات بڑھنے کے ساتھ ساتھ جرائم اس قدر بڑھنے لگے جن کا تذکرہ کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں وحشت کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے اور یہ سب کیا دھرا ہمارے سیاستدانوں حکمرانوں چودھریوں جاگیرداروں اور وڈیروں کا ہے جنہوں نے ذاتی مفادات کی خاطر پولیس و دیگر اداروں کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہوا ہے آئیے پاکستان کے سرکاری امراء خاص کر محکمہ پولیس پر تحقیق کریں نتیجہ مایوسی کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ ہی مجھے بتا دیں کہ لاہور کے تھانوں میں جتنے ایس ایچ اوز مقرر کئے گئے ہوئے ہیں ان میں سے ایسے کتنے ہیں جنہیں میرٹ پر لگایا گیا ہوا ہے شائد 80 فیصد شرح ان ایس ایچ اوز اور افسروں کی ہے جن کے پاس یا جن کے پیچھے مقتدر افراد کی سفارش موجود ہیں۔ اور یہ مقتدر قوتیں تھانوں میں اپنے خاص بندے لگواتی ہیں تاکہ بوقت ضرورت ان سے ناجائز کام لیا جا سکے اس ضمن میں آئی جیز سے لے کر عام پولیس افسر تک سب سفارشی ہوتے ہیں چہیتے اور فیورٹ ہیں شائد قانون سے بالاتر ہیں قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور انہیں من مانیاں کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہوئی ہے۔ یہ جب چاہئیں کسی شریف یا مخالف کی پگڑی اچھال کر رکھ دیں ان کا اختیار ہے جب چاہیں کسی کو پولیس مقابلے کے نام پر قتل کر دیں۔ حکومت پاکستان خاص کر شریف برادران نے اپنے ہر دور اقتدار میں پولیس کی اصلاح کرنے کے لئے کئی اعلانات کئے ہیں مگر شائد بیانات کی حد تک اگر حکومتوں بالخصوص پنجاب حکومت نے کوئی کوشش کی بھی ہے تو نظر نہیں آ رہی جرائم کی شرح بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
ہماری بدقسمتی کہ ہمارے یہاں تھانے بکتے ہیں مثلا ایک تھانہ جرائم کروانے کی منتھلی دس لاکھ روپے اکٹھی کرتا ہے تو اپنے پسندیدہ تھانے میں متعین ہونے کے لئے ایس ایچ او دس لاکھ ہی منتھلی دینا ہو گی اور وہ گھاٹے کا سودا نہیں کرتا ایک بار دس لاکھ دے کر وہ چند مہینوں کے اندر ہی نہ جانے کتنے لاکھ کما لیتا ہے علاقے کے جرائم جائیں جہنم میں اسکی بلا سے اسے غرض ہوتی ہے صرف اپنے افسروں کو خوش رکھنے سے اور اپنے آقائوں کی ضروریات پوری کرنے سے اور بس۔

خواجہ عبدالحکیم عامر....سچ ہی لکھتے جانا

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...