پنجاب یونیورسٹی میں کتابوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ مادر علمی کی مامتا کتاب اور خواب کی صورت میں انقلاب کی آواز بنتی ہے اور انقلاب کئی قسموں کے ہوتے ہیں۔ جیسے آدمی کئی زندگیاں گزارتا ہے۔ تبدیلی اور انقلاب میں فرق ہے مگر ہم صرف فرقہ واریت میں مبتلا رہتے ہیں۔ کئی برسوں سے کتاب میلہ پنجاب یونیورسٹی میں لگتا ہے اور ہر برس پہلے سے مختلف منظر نامہ لے کے آتا ہے۔
پچھلے برس اردو صحافت کا افتخار‘ بہادر اور بے باک انسان ڈاکٹر مجید نظامی نے افتتاح کیا تھا۔ وہ کتابوں کے ہر سٹال پر گئے۔ کتابوں اور کتابی چہروں کا ایک کارواں تھا جو ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ وہ بہت دیر تک یونیورسٹی میں رہے۔
پنجاب یونیورسٹی کا یہ اعزاز بھی تاریخ ساز ہے کہ شاید دنیا میں صحافت کے کسی بطل جلیل کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی گئی۔ مجید نظامی نے اس ڈگری کو ایسا اعزاز بخشا ہے۔ اب ہر کوئی انہیں ڈاکٹر مجید نظامی کہہ کر پکارتا ہے۔
اس برس وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار رانا تنویر آئے۔ دوستانہ انداز کوئی وزیر شذیر اختیار نہیں کر سکتا جسے کتاب سے رابطہ نہ ہو۔ وہ دیر تک گورنمنٹ کالج لاہور کو یاد کرتے رہے۔ ہمارا زمانہ ایک ہی تھا۔ کہنے لگے کہ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کے کالموں سے کبھی کبھی ڈر لگتا ہے۔ یہ بات اتنی دفعہ انہوں نے کی کہ میں نے ان سے کہا کہ رانا صاحب میں نے آپ کے خلاف کبھی نہیں لکھا مگر اب مجھے لکھنا پڑے گا۔ وہ بولے کہ کوئی بات سناﺅ۔ میں نے کہا کہ آپ ممبران اسمبلی کے لئے لازم کروا دیں کہ وہ زندگی میں ایک کتاب ضرور پڑھیں اور پوری پڑھیں۔ وہ کہنے لگے کہ میں خوش ہو گیا تھا کہ تم کہہ رہے ہو ممبران اسمبلی سے کتاب لکھوائیں۔ یہ تو آسان کام ہے وہ کوئی نہ کوئی کتاب کسی نہ کسی سے لکھوا لیں گے۔ البتہ ان کی جگہ کوئی دوسرا کتاب نہیں پڑھ سکتا۔ میرے پاس بیٹھے ہوئے ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد نے کہا کہ پھر ان کتابوں کو پڑھے گا کون؟ اس بار انتظامات میں ڈاکٹر زاہد نے بڑی دلچسپی لی اور صورتحال بہتر ہو گئی۔ رونق بھی بہت تھی۔ رونق تو ہمیشہ بہت ہوتی ہے۔
رانا تنویر نے یہ بات بھی بتائی کہ ایک ہارے ہوئے ہمارے امیدوار اسمبلی کو بیوی نے کہا کہ بیٹا امتحان میں فیل ہو گیا ہے۔ شوہر کہنے لگا کہ جتنی نظر تم مجھ پر رکھتی ہو بیٹے پر رکھتی تو وہ فیل نہ ہوتا۔ بیوی کہنے لگی کہ نظر تم پر میں نے رکھی مگر الیکشن میں تم بھی فیل ہو گئے ہو۔ پروفیسر جاوید سمیع راجہ منور اور ڈاکٹر شوکت اور ڈاکٹر کامران بہت سرگرم تھے۔
کتابوں کے 160سٹال لگے اور تین دنوں میں ایک لاکھ 54ہزار کتابیں فروخت ہوئیں۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کتاب دوست وائس چانسلر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کردار سازی اور تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کے لئے مطالعہ بہت ضروری ہے۔ مہنگائی کے دور میں کتاب تو سستی کرو۔ حکومت اس حوالے سے بھی خصوصی انتظامات کرے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران فزکس کے آدمی ہیں اور لگتے میٹا فزکس کے آدمی ہیں۔ کہتے ہیں کتاب بہترین دوست ہے مگر دوست امیر کبیر ہو جائے تو اس کے ساتھ ملاقات مشکل ہو جاتی ہے۔ اس کتاب میلے میں چھٹی کے دن لڑکے لڑکیوں کا ہجوم اور شہر کے باذوق خواتین و حضرات کی دلچسپی دیکھ کر حوصلہ ہوا کہ ابھی کتاب کلچر موجود ہے۔ میں نے ایک بہت ماڈرن لڑکی کو تین چار گھنٹے تک کتابوں کو مسلسل دیکھتے ہوئے دیکھا۔ اس نے ایک بھی نہ خریدی۔ پھر مقبول اکیڈمی کے سٹال پر علامہ عبدالستار عاصم کے پاس کھڑے ملک مقبول نے اس کتاب چہرے والی خوبصورت لڑکی کو اپنی طرف سے ایک کتاب تحفے کے طور پر دے دی۔ کتاب سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں۔
کتاب میلے کے پہلے دن وزیرتعلیم رانا مشہود اور عرفان صدیقی آئے تھے۔ رانا مشہود چاہیں تو کتاب کی محبت تعلیمی اداروں میں پھیلا سکتے ہیں۔ لائبریریوں کو ایسی جگہوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے کہ وہاں جانے کو دل کرے تو پھر کتاب پڑھنے کو بھی دل کرنے لگے۔ میری یہ بات ڈاکٹر مجاہد کو یاد رہتی ہے کہ مجھے کتابیں اور کتابی چہرے اچھے لگتے ہیں۔ میلے میں ان دونوں چیزوں کی اتنی بہتات تھی کہ میں بکھر گیا پھر مکمل ہو گیا۔ رانا تنویر نے کہا کہ مجھے کتابیں اور دوست اچھے لگتے ہیں تو فوراً ڈاکٹر مجاہد نے بے پناہ شاعر مجید امجد کی نظم سنا دی جس نے ماحول میں غم کی کیفیت پیدا کی مگر غم میں خوبصورتی بھی ہوتی ہے جسے ملال کہتے ہیں۔ البتہ دکھ میں اذیت زیادہ ہوتی ہے۔ مجید امجد نے توسیع شہر کے نام سے نظم لکھی ہے جب شہر کی کشادگی کے لئے نہر کنارے درختوں کو کاٹ کر پھینک دیا گیا تھا۔
بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر بانکے پہرے دار
گھنے سہانے چھاﺅں چھڑکتے بور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
مجھے بھی مجید امجد بہت پسند ہے۔ یونیورسٹی والوں نے مجھے الحمد پبلی کیشنز سے کلیات مجید امجد دی۔ یہ نامور اور محبوب استاد محقق اور دانشور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے تحقیق تدوین و ترتیب کے بعد شائع کی ہے۔ آخری دن مہمانوں کی کثرت رہی۔ ڈاکٹر مجاہد نے کتاب میلے کے گیارہ چکر لگائے میں نے انہیں کہا کہ سات پھیرے ہی کافی تھے۔ انتظار حسین‘ سہیل عزیزی‘ مشکور حسین یاد‘ حفیظ اللہ نیازی‘ عطاالحق قاسمی‘ رانا عطاالرحمن‘ ڈاکٹر سعادت سعید‘ سعداللہ شاہ‘ ڈاکٹر خالد اقبال یاسر‘ شجاعت ہاشمی‘ سہیل وڑائچ‘ ڈاکٹر شازیہ نورین قریشی‘ افتخار مجاز کے علاوہ بھی کچھ خواتین و حضرات تھے جو یاد رہے مگر ان کے نام یاد نہیں رہے۔