صوفی تبسم اور قیوم نظر اگر بچوں کے لئے نظمیں لکھ سکتے تھے تو میں بچوں کی دلچسپی کا ایک کالم کیوںنہ لکھوں۔
بچوں نے لاہور کی چوبرجی گرائو نڈ میں ایک طیارے کو باہر اور اندر سے کئی بار دیکھا ہو گا، ایک طیارہ لاہور کے چائنا چوک میں گڑا ہوا ہے، عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایم ایم عالم کا طیارہ تھا۔اس کے پہلو میں ایک تختی نصب ہے جس پر شاہراہ ڈاکٹر مجید نظامی کندہ ہے۔اور یہ ایم ایم عالم اور ڈاکٹر مجید نظامی میرے دل ودماغ اور میرے احساسات میں بری طرح حلول کر گئے ہیں۔
پچھلے دور کے بچے الف لیلی کی کہانیاں پڑھتے تھے، ان میں اڑن کھٹولوں کا ذکر ہوتا تھا ۔ان پر بیٹھ کر بادشاہ فضائوںمیں تیرا کرتے تھے، ان کے ہاتھ میں ایک پیالہ ہوتا تھا جن سے وہ پوری دنیا کی خبروں سے آگاہی حاصل کرتے تھے، یہ اس زمانے کا گوگل تھا۔
کچھ عرصہ پہلے کنٹرول لائن پر جھڑپیں شروع ہوئیں۔ بھارت میں ایک چیئر مین جائنٹ استاف کا منصب ہے ، اس پر ان کے ایئر چیف براجمان ہیں۔ انہوںنے دھمکی دی کہ پاکستان کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔ہمارے ہاں ان دنوں فضائیہ کی مشقیں جاری تھیں، ہمارے ایئر چیف طاہر رفیق بٹ ایک طیارے میں بیٹھے، اسے فضائوں میں بلند کر دیا، اس وقت ہماری فضائوں میں ایک ایواکس طیارہ بھی محو پرواز تھا ، اس میںہمارے آرمی چیف جنرل کیانی بھی موجود تھے ۔ ہماری دوا فواج کے سربراہوںنے بھارتی ایئر چیف کو علامتی طور پر بتایا کہ مہاراج! ہم ا ٓپ سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے تیار ہیں۔
ایواکس کے بارے میں آپ سب نے یہ خبر بھی پڑھی ہو گی کہ کامرہ کے نواح میںمنہاس ایئر بیس پر آٹھ دہشت گردوںنے حملہ کیا۔اگرچہ یہ تمام حملہ آور مارے گئے لیکن مرنے سے پہلے دہشت گردوںنے اپنا نصب العین پورا کر لیا تھا، بیس پر موجود ایک ایواکس طیارے کو تباہ کر دیا گیا۔رانا ثنا اللہ تو جنوبی پنجاب کے طالبان کے وجودسے انکار کرتے ہیں لیکن کامرہ پر حملے میںایک دہشت گرد لاہور سے صرف تیس منٹ کی ڈرائیو پر قصور کے سرحدی گائوں برج کلاں کا بھی ایک نوجوان شامل تھا۔ اس کے باپ کو گرفتار کر لیا گیا۔باپ ہونا تو اس کا جرم تھا ہی، لیکن اس کے اکائونٹ میں بھاری رقم بھی منتقل ہوئی تھی، کس صلے میں ، کوئی نہیں جانتا۔
کراچی میں بحریہ کی مہران بیس پر دہشت گردوںنے حملہ کیا اور ایک اورین طیارے کو تباہ کر دیا۔اورین طیارہ سمندر میں دشمن کی آبدوزوں اور بحری جہازوں کی جاسوسی اور نگرانی کے کام آتا ہے۔
دہشت گردی کے ان دو واقعات کو کئی برس گزر گئے، میں آج تک نہیں جان سکا کہ دہشت گردوں کو ایواکس اور اورین طیاروں کی تباہی سے کیا دلچسپی تھی۔ کبھی کبھی یہ سوچ کر دل کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ دہشت گردوں کے پاس ریموٹ کنٹرول بم، خودکش بچوں اور خواتین کا ایک لشکر تو موجود ہے۔ پچھلے ماہ لال مسجد والے ایک مولانا نے کہاتھا کہ کیا ہوا جوپاکستان کے پاس ایف سولہ کا بیڑہ ہے لیکن طالبان کے پاس خود کش بمباروں کا جتھہ ہے، اور پانچ سو خودکش خواتین حملے کے لئے تیار بیٹھی ہیں۔ مولانا کے دعوے کے مطابق ان خودکش حملوںنے عراق اور افغانستان میں امریکی اور اس کی اتحادی افواج کو شکست سے دوچار کیا، پاکستان کس کھیت کی مولی ہے۔وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ مگر شاید پورا سچ انہوںنے نہیں بولا، میرا خیال ہے کہ دہشت گردوںکے پاس آبدوزیں ،فری گیٹس، تباہ کن بحری بیڑہ، بمبار اور لڑاکا طیاروں کا لشکر بھی موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پاک فضائیہ کا ایواکس اور پاک بحریہ کے اورین کو تباہ کرنا ضروری سمجھا۔
میںنے کوئی بڑ نہیں ہانکی۔ایواکس اور اورین طیارے آج تک دہشت گردی کی جنگ میں استعمال نہیںہوئے، اس لئے کہ اس جنگ میں ان کا کوئی استعمال ہے ہی نہیں۔ایک بار جنرل مشرف نے یونہی بے پر کی اڑائی تھی کہ وہ زمانہ لد گیا جب بلوچ شر پسند پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا چھپتے تھے، اب پاکستان کے پاس ایسے آلات موجود ہیں کہ وہ ان بلوچ شر پسندوں کو ان کی خفیہ پناہ گاہوں میں دیکھ سکتے ہیں۔میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کی یہ سرے سے بے بنیاد دعوی تھا، امریکہ کے پاس ڈرون ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے وہ ٹھیک نشانے پر میزائل گرا سکتا ہے لیکن اس نشانے کی نشاندہی کسی پیدل کو ہی کرنا پڑتی ہے اور وہی اس نشانے پر ایک چپ نصب کرتا ہے، ڈرون کا میزائل تو صرف اس چپ کا پیچھا کرتا ہے۔ڈرون خود تو ننگی یا خفیہ آنکھ سے کسی ٹارگٹ کو تلاش کرنے سے قاصر ہے اور اب ملائیشیا کے مسافر جہاز کی گم شدگی کے بعد یہ نظریہ بھی باطل ہو گیا ہے کہ امریکی سٹیلائٹ زمین پر رینگنے والی چیونٹی اور سوئی تک کو دیکھ سکتے ہیں۔
تو کیا پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے والوںکے پاس واقعی آبدوزیں، فری گیٹس،لڑاکا اور بمبار طیارے موجود ہیں ، مجھے تو یقین ہے کہ ان کے پاس موجود ہیں۔ورنہ انہیں ہمارا ایواکس اورا ورین طیارہ تباہ کرنے کی کیا ضرورت محسوس ہوئی۔ایواکس طیارہ بیس ہزار فٹ کی بلندی پر اپنے ارد گرد ساڑھے چار سو کلو میٹرمیل دور ، اوپر، سامنے یا نیچے فضا میں ایک سو ساٹھ ڈگری پر دشمن کے جہازوں کا سراغ لگا سکتا ہے، اس کا رابطہ زمین پر ایئر فورس کے کنٹرول روم سے بھی ہوتا ہے ا ور فضا میںمحو پرواز ایف سولہ کے ریڈار سے بھی وہ اپنی معلومات شیئر کر تا ہے۔پاکستان کے پاس سویڈن اور چین کے بنے ہوئے ایواکس کا بیڑہ ہے، اس بیڑے کی وجہ سے پی اے ایف کا شمار دنیا کی بہتریں ایئر فورسز میں ہوتا ہے، اسے جدید خطوط پر استوار کرنے میں رائو قمر کا کاوشوں کا حصہ ہے لیکن قوم کا یہ ہیرو ریٹائر منٹ کے بعد مہینوں تک لاہور کے ایک ہسپتال میں بے ہوش پڑا رہا، شاید ہی کوئی اس کی مزاج پرسی کے لئے گیا ہو۔مگر اس کے حاصل کردہ ایواکس طیارے کوتباہ کرنے والوںکے ساتھ ایک نہیں کئی کمیٹیاں کام کر رہی ہیں، میجر عامر کی کمیٹی توڑ دی گئی ہے مگر وہ اب بھی مذاکرات میںبیٹھنے کا شوق پورا کر رہا ہے۔
مذاکرات ضرور ہونے چاہئیں۔ معلوم نہیں کہ ان مذاکرات میں ہمارے رابطہ کاروںنے طالبان سے سوال کیا ہے یا نہیں کہ حضور، ایواکس اور اورین جاسوس طیارے کیوں تباہ کئے جو سراسر بھارت کی فضائی ا ور بحری جارحیت کو روکنے میںکام آنے تھے، آپ نے ہمیں بھارت کے مقابلے میں کمزور کیوں کیا۔بھارت ویسے بھی ان طیاروں میں ابھی تک پس ماندہ ہے اوراس کی خواہش تو ہو سکتی ہے کہ پاکستان کو بھی اس صلاحیت سے محروم کر دیا جائے مگر اسے اپنی کمینی خواہش کو پورا کرنے کی جرات نہیں ہو سکی۔
کہیں ایساتو نہیں کہ کامرہ اور مہران بیس پر حملہ کرنے والوںنے بھارتی عزائم کی تکمیل کی ہو۔
تو کیااس کا تقاضہ یہ نہیں کہ ہم شملہ معاہدے کے تحت اس معاملے پر براہ راست بھارت سے مذاکرات کریں، پراکسی طاقت کے ساتھ سر کھپانے کی کیا ضرورت۔
میرا یہ سوال میجر عامر اور پروفیسر ابراہیم دونوں سے ہے، وہ فوادحسن فواد کے ذریعے اپنے جواب سے قوم کو بہرہ مند فرمائیں۔منورحسن ابھی تک جماعت کے امیر ہیں۔ عہدہ چھوڑنے سے پہلے وہی اس مسئلے پر لب کشائی فرمائیں۔