اسلام آباد(خبرنگار+ نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ اپوزیشن وزیر اعظم کے جوڈیشل کمشن کو رد کرتی ہے، پانامہ لیکس میں وزیر اعظم کے خاندان، بیٹوں کے اثاثوں کے بارے میں رپورٹ پر بین الاقوامی ادارے سے فرانزک تحقیقات کرائی جائیں۔ ججز کو آڈٹ کے قانون کا کیا پتہ، ٹیکسز کیسے بچائے جاتے ہیں کے بارے میں کوئی ماہر ہی تحقیق کرسکتا ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ وزیر اعظم فوراً گھر جائیں ہم کہتے ہیں تحقیقات ہونی چاہیے، جوڈیشل کمشن کو کون مانے گا۔ قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر خورشید شاہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایشو پیپلزپارٹی نے اٹھایا نہ پی ٹی آئی نے نہ کسی اور جماعت نے یہ ایک بین الاقوامی ایشو ہے، یہ عام ایشو نہیں، پہلے جب الزامات لگتے تھے تو ملک کے اندر سے لگتے تھے، حسین نواز نے تسلیم کیا کہ ہماری آف شور کمپنیاں ہیں۔ ہم چائنہ کے راگ الاپتے ہیں کیونکہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرتا ہے، پھر ہم دوسروں کو کیسے کہیں کہ یہاں سرمایہ کاری کرے جب خود وزیر اعظم کا بیٹا دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کرے اور ملک کے وزیر اعظم اور اس کی فیملی کو ملک پر اعتماد نہ ہو تو پھر دوسروں کو یہاں پر سرمایہ کاری کے لئے کہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ وزیر اعظم نے خطاب کیا اور خود کئی سوالات اٹھائے، انہوںنے کہا کہ پیپلزپارٹی نے ان کے کارخانے نیشنلائز کیے، اس وقت تو وہ سیاست میں ہی نہیں تھے ان سے انتقام کیسا، ضیاء کے زمانے میں آپ کو سکریپ کے جہاز بھرے آتے تھے اور اس سکریپ پر ٹیکس گوداموں پر پہنچ کر لگایا جاتا تھا، جس ڈکٹیٹر کو آپ نے باعزت باہر بھیج دیا، اس نے آپ کی پراپرٹی پر دھاوا بولا، آپ خود کہتے ہیں کہ برے وقت کے لئے سرمایہ باہر لے گئے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں سے پیسہ کس طریقے سے باہر لے گئے، آپ نے سعودی عرب میں ایک سٹیل مل لگائی اور اتنا منافع کمایا کہ بڑی بڑی ملوں نے بھی اتنا منافع نہیں کمایا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ سمجھ میں نہیں آیا وزیراعظم کو خطاب کے لئے دھکا کس نے دیا۔ جوڈیشل کمشن کو 30 سال بھی ثبوت نہیں ملیں گے۔ سیاست دان ملک کے پیسوں کا رکھوالا ہوتا ہے، لوگوں سے ٹیکس وصول کرتا ہے اور اس رقم کی نگہبانی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی فرم سے تحقیقات کرائی جائیں اس سے کم پر بات نہیں بنے گی، یہ حکومت کے سامنے بہت بڑا مسئلہ ہے، جو ڈیشل کمشن 3ماہ کے بعد کہے گا کہ ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں آیا، اس سے قبل اپوزیشن کی تحریک التواء پر بحث کرانے کے حوالے سے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ بحث کرانے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، کھل کر بات ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے ٹاک شوز اور گلی کوچوں میں بات ہونے کی بجائے پارلیمنٹ کے فورم پر بات ہونی چاہئے۔ ہمیں طریقہ کار طے کرلینا چاہئے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس حوالے سے ہماری تحریک التواء بھی جمع ہو چکی ہے، ہم نے قواعد کے تحت ہی تحریک التواء جمع کرائی ہے، طریقہ کار واضح ہے۔ صاحبزادہ طارق اﷲ نے کہا کہ اگر اس معاملے کی اتنی اہمیت نہ ہوتی تو وزیراعظم اس معاملے پر کمشن بنانے کا اعلان نہ کرتے۔ نوید قمر نے کہا کہ اگر حکومت کو اعتراض نہیں ہے تو تحریک التواء کو قاعدہ 259 میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ عام بحث کی اجازت ہونی چاہئے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمشن کے ارکان کا آج کل میں نام آ جائے گا۔ سپریم کورٹ کے حاضر یا ریٹائرڈ جج کی کمشن میں تقرری سے فرق نہیں پڑتا۔ قانون کے تحت کمشن میں حاضر جج کی تقرری لازمی نہیں۔ وزیراعظم نے بھرپور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ ٹرمز آف ریفرنس اتنے جامع بنائیں گے کسی کو انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پانامہ پیپرز کا فرانزک آڈٹ ہونا چاہیے۔ انکوائری کمشن پر مطمئن نہ ہوں تو معاملہ سپریم کورٹ میں لے جائیں۔ عدالت کا دروازہ اب بھی کھلا ہے۔ خورشید شاہ کے مطالبات پر پہلے ہی سے عملدآمد ہو رہا ہے۔ ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں بننے والا انکوائری کمشن ہوتا ہے۔ حسین اور حسن نواز پر الزام لگے۔ نواز شریف نے باپ کی حیثیت سے فرض نبھایا۔ زکوٰۃ اور خیرات کے پیسے ضائع نہیں کرنے چاہئیں۔ زکوٰۃ و خیرات کے پیسوں کا اپنے پیسے سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ افسوس زکوٰۃ کے پیسے فرانس اور مسقط میں ضائع کیے گئے۔ خان صاحب نے مسقط اور برطانیہ کی 9 آف شور کمپنیوں میں سرمایہ لگایا۔ ہم پیسوں کے ذرائع ثابت کریں گے۔ نواز شریف کا احتساب 1988ء سے ہو رہا ہے۔ قبل ازیں خورشید شاہ سے شاہ محمود نے ملاقات کر کے موجودہ صورتحال پر غور کیا اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر اتفاق ہوا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عمران خان نے قومی اسمبلی میں غلط بیانی کی، پانامہ لیکس الزامات کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمشن عمران خان کے کہنے پر بنایا گیا ہے، عمران خان آف شور کمپنیوں کے حمایتی تھے اب گالیاں دیتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین کی تقریر کے دوران تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور دیگر پارٹی اراکین کی ہنگامہ آرائی، ایوان مچھلی منڈی بن گیا، رانا تنویر حسین نے کہا کہ شوکت خانم ہسپتال کا پیسہ عمران خان نے کھایا جس پر عمران خان اور پی ٹی آئی کے اراکین کھڑے ہوگئے اور احتجاج کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ مجھ پر الزام لگایاگیا ہے کہ میں نے شوکت خانم کا خیراتی پیسہ کھایا ہے جس پر رانا تنویر حسین کو اپنے الفاظ واپس لینے پڑے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ نواز شریف کو کسی نے بھی زبردستی باہر نہیں بھیجا بلکہ وہ خود چاہتے تھے کہ انہیں باہر بھیجا جائے پڑوسی ملک کے ذمہ دار نے انہیں باہر بھیجنے کی سفارش کی، وزیر سیفران عبدالقادربلوچ نے کہا کہ وزیراعظم کے کردار پر کیچڑ اچھالا جائے گا تو ہم جواب دیں گے۔
اسلام آباد (خبرنگار+ نوائے وقت رپورٹ) تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ وزیراعظم اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کریں۔ پاکستانی قوم جواب مانگ رہی ہے، چیف جسٹس کی سربراہی میں کمشن بنایا جائے جن کی نگرانی میں ایک کمیٹی بنائی جائے جس کا ہیڈ فرانزک ایکسپرٹ ہو، اگر بااختیار کمشن قائم نہ ہوا تو ہمارے پاس سڑکوں پر آنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوگا۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ وزیراعظم پر ہم نے الزامات نہیں لگائے، یہ الزامات پانامہ لیکس نے لگائے ہیں، جب حکومت پر یہ الزامات لگے تو ان کا جواب دینے کے بجائے الٹا ہم پر الزامات تراشی شروع کردی گئی۔ شوکت خانم اور بنی گالا کا نام تو پانامہ لیکس میں نہیں آیا، آپ نے الزامات بھی لگائے تو ایک کینسر ہسپتال پر جہاں 70فیصد علاج غریب لوگوں کا ہوتا ہے۔ اگر شوکت خانم ہسپتال میں کوئی خرابی ہے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کی تحقیقات کرے۔ آپ کو اب خیال آیا جب وزیر اعظم کے بچوں پر الزام لگا۔ اس وزیر نے جو زبان پارلیمنٹ میں استعمال کی ہم چپ بیٹھے رہے جمہوریت حوصلہ اور برداشت کا نام ہے۔ حوصلہ رکھیں اور سنیں۔ دنیا میں جن ملکوں کے لیڈروں پر الزامات لگے وہاں بڑے پیمانے پر تحقیقات جاری ہیں، وزیر اعظم کے پاس صرف اخلاقی طاقت ہوتی ہے، شوکت خانم ایک ادارہ ہے، آپ کہتے ہیں 3ملین ڈالر ڈوب گئے ہیں، 29جون 2015 کو شوکت خانم کو یہ رقم واپس آچکی ہے،کینسر ہسپتال بند ہوجائے تو کیا حکومت نے کوئی ہسپتال کھڑے کیے ہیں، شوکت خانم کا 40فیصد فنڈ باہر سے آتا ہے، ہم نے تمام چیزیں اوپن رکھی ہوئی ہیں، آپ پر چار الزام ہیں، فنڈز کی غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقلی، ٹیکس چوری، اثاثوں کو چھپانا، آپ کرسی بچانے کے لئے ایک خیراتی ادارے کو بند کرانا چاہتے ہیں، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ سیاست سے نکلیں اور ملک کا سوچیں، آپ کو وزیر اعظم سے پوچھنا چاہیے کہ اپنے اثاثے ڈکلیئر کریں۔ مجھ پر الزامات لگا کر بلیک میل کررہے ہیں کہ میں چپ ہو جائوں۔ نیب کو فعال بنایا جائے۔ پاکستانی عوام کو شک تھا جو اب ثابت ہوگیا ہے۔ ہم نے یہ ایشو جانے نہیں دینا۔ ایک ٹیلی فون کر کے پوچھا جا سکتا تھا باہر کمپنی سے پیسہ واپس آگیا؟ شوکت خانم کا فنڈ 40 فیصد سمندر پار سے آتا ہے۔ منی لانڈرنگ کر کے شوکت خانم کیلئے پیسہ نہیں لیا گیا۔ میری حکومت آئی تو میں چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ جمہوریت میں جوابی الزامات نہیں لگائے جاتے۔ میاں صاحب سے پہلے میری انکوائری کرائیں۔ آڈٹ کیلئے بیرون ملک سے ماہرین بلائے جائیں۔ پانامہ لیکس پر آزادانہ انکوائری کی ضرورت ہے کوئی شک ہے تو بنی گالہ کی بھی تحقیقات کر لیں۔ قبل ازیں سپیکر قومی اسمبلی نے رہنما پی ٹی آئی شیریں مزاری کو مداخلت پر جھاڑ پلا دی۔ شیریں مزاری نے پانامہ لیکس پر لقمہ دیا تھا جس پر سپیکر قومی اسمبلی نے کہا ڈاکٹر صاحبہ آپ چپ رہیں، مجھے ڈکٹیٹ نہ کریں۔ پانامہ لیکس کے کاغذات افشا ہونے سے پیدا شدہ صورتحال پر بحث کے لیے وقفہ سوالات سمیت معمول کا بزنس معطل کیا گیا ہے۔ عمران نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس کا نظام درست، اثاثوں کا اعلان اور نیب کو درست کر لیں تو باعزت ملک بن سکتے ہیں ہمارا حق بنتا ہے کہ نواز شریف اور حکومت سے پوچھیں اب وزیراعظم کے بچوں پر الزام لگے تو جوابی الزام لگانے کا کیا جواز ہے۔ اس بار ڈی چوک کا نہیں رائے ونڈ کا رخ کریں گے۔ تحریک انصاف نے بھی وزیراعظم کی طرف سے اعلان کئے جانے والا کمشن قبول نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے چیف جسٹس کی سربراہی میں بااختیار کمشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
لاہور (نامہ نگار خصوصی /کامرس رپورٹر/ سپیشل رپورٹر/ نیوز رپورٹر/ سپورٹس رپورٹر + نوائے وقت رپورٹ) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے پانامہ لیکس کیخلاف مسلسل تیسرے روز بھی احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا، پانامہ لیکس پر آئوٹ آف ٹرن تحریک التوائے کار پیش کرنے کی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن نے ایوان میں حکومت مخالف نعروں والے سٹیمر ایوان میں لہرا تے ہوئے سپیکر ڈائس کے سامنے دھرنا دیدیا، سپیکر نے سکیورٹی پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے آئندہ خواتین اراکین کے بیگ چیک کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ میاں محمود الرشید نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے سپیکر سے پانامہ لیکس پر آؤٹ آف ٹرن تحریک التواء کار پڑھنے کی اجازت چاہی اور یقین دلایا کہ اس میں حکمران خاندان کے کسی فرد کا نام نہیں ہوگا جس پر سپیکر نے انہیں رولز کو فالو کرنے کے لئے کہا تاہم اپوزیشن اراکین نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر حکومت کے خلاف نہ صرف نعرے بازی شروع کردی اور ڈائس کے سامنے آکر بیٹھ گئے ۔ اس دوران اپوزیشن اراکین گو نواز گو، راکے ایجنٹ نا منظور نا منظورکے نعرے لگاتے رہے جسکے جواب میں حکومتی بنچوں پر بیٹھی خواتین اراکین نے بھی رو عمران رو اور یہودیوں کے ایجنٹ نامنظور کے نعرے لگائے۔ میاں طارق نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ آج ایوان میں اپوزیشن کی طرف سے جو حرکت کی گئی ہے اس سے ایوان کا جو تقدس پامال کیا گیا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، ان کی اس حرکت کیخلاف ایکشن لیا جانا چاہئے۔سپیکر کو ایوان کی کارروائی چلانے کے لئے ہیڈ فون لگانا پڑگئے ۔قبل ازیں اجلاس میں محکمہ امداد باہمی اور صنعت و تجارت سے متعلق سوالوں کے جوابات دئیے گئے۔ اپوزیشن ارکان نے شدید احتجاج کیا اور پھر ایوان سے واک آئوٹ کر گئے۔ اسمبلی سیاسی اکھاڑا بن گئی۔ حکومتی رکن میاں طاہر جمیل نے بھی شوکت خانم کے عطیات کو کاروباری مقاصد کیلئے استعمال کرنے پر قرارداد اسمبلی میں جمع کرا دی۔ قرارداد میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کرکے عمران خان سمیت دیگر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا گیا۔ پنجاب اسمبلی میں پری بجٹ پر ارکان کی طرف سے تجاویز کا سلسلہ جاری رہا تاہم حکومت اور اپوزیشن اراکین اسمبلی میں بات تو کرتے رہے تاہم ساتھ ساتھ یہ رویہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ان کی تجاویز پر عمل نہیں ہوگا رکن اسمبلی طارق محمود نے کہا کہ محکموں کو پلاننگ کرنی پڑے گی جس سے عوام کے مسائل حل ہونگے۔ رکن اسمبلی شعیب صدیقی نے کہا بجٹ تجاویز بجٹ میں نظر نہیں آتی ہیں۔ رکن اسمبلی رنبیرہ عندلیب نے کہا کہ سرکاری سکولز این جی اوز کے حوالے کئے جارہے ہیں جس سے تعلیم مہنگی ہوگی۔ رام حسن باوجوہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی ایچ یو میں ڈیلیوری کی سہولیات دی جائیں۔ محمد سبطین خان نے کہا کہ حکومت کے رویئے کو درست کرنا چاہیے۔