دو ہفتے پہلے بھارتی خفیہ ایجنسی’را‘ کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو منظر عام پر لا گیا۔قوم کیلئے یہ بہت بڑی خبر تھی ۔ انڈیا نے سال ہا سال سے بلوچستان میں تخریبی کارروائیاں جاری کر رکھی تھیں مگر عام ثبوت ماننے سے مسلسل انکاری تھا اب پاکستان نے ایک نا قابل تردید جیتا جاگتا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے۔اس کہانی پر بہت زیادہ بحث ہوتی مگر اسکے فوراً بعد ہی گلشن اقبال کا افسوسناک سانحہ اور اسلام آباد میں بے بنیاد دھرنے کا واقعہ پیش آگیا جس نے قوم کی توجہ بانٹ لی۔اب پانامہ لیکس کا کیس سامنے آ گیا ہے جس پر بحث ومباحثہ جاری ہے۔ان حالات میں محبِ وطن پاکستانی اکثر یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ کہیں اتنی تباہ کاریاں لانے اور اتنی انفارمیشن دینے والا انڈین ایجنٹ اس شور وغوغاکے سبب بچ نکلنے میں کامیاب نہ ہو جائے۔ میں نے اس موضوع پر جو کچھ محسوس کیا وہ آج اپنے ہموطنوں کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے تو یہ یادرکھیں کہ نا تو یہ آدمی اچانک کہیں سے پکڑا گیا ہے اور نہ ہی اسکی فراہم کردہ معلومات کافی ہیں۔جن باتوں کا اس نے اعتراف کیا ہے وہ بالکل سطحی ہیں جن پر ہمیںکسی حد تک مطمئن کیا جا سکتا تھا۔یہ وہ باتیں ہیں جن کے بتائے بغیر وہ تکلیف اٹھاتا اور جن کی اسے ’را‘ سے اجازت ہوگی کہ وہ پکڑے جانے پر ہمیں بتا دے۔وہ کوئی معمولی ایجنٹ نہیں تھا۔اسکو کئی سال پہلے ہمارے سٹریٹیجک منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کی خاطر یہاں جال بچھانے کیلئے بھیجا گیا تھا۔
اسکے بالواسطہ اور بلا واسطہ اہداف کئی ہونگے۔چونکہ وہ نیوی سے ہونے کے ناطے بندرگاہوں کی دفاعی اور معاشی اہمیت کو پہچانتا تھا لہٰذا اسے چاہ بہار میں ایرانی دستاویزات پر مقیم کر کے ہمارے گوادر ،پسنی اور کراچی کے علاقوں میں کام سونپا گیا۔ اسکے ذمہ داری کے علاقے کی گہرائی ملحقہ بلوچ علاقہ تھا جبکہ اس کی سپورٹ ایران اور افغانستان کے ذریعے سے ہوتی تھی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران تو اسکی حرکات و سکنات سے لا علمی کا اظہار کر سکتا ہے مگر ہماری نظروں سے وہ کیسے اوجھل رہا۔اطلاعات کے مطابق 2006ء سے ہماری ایجنسیاں اس پر نظر رکھے ہوئے تھیں۔ ایک عام ورکر قسم کے جاسوس کو زیادہ مہلت دینے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اس کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے۔ مگر اسطرح کے آدمی کو فوراً پکڑ لیا جائے تو اسکے نیٹ ورک کی اصل منصوبہ بندی پوشیدہ ہی رہ جاتی ہے ۔ دشمن اسے چھوڑ کر کسی اور سمت سے سرائیت کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔لہٰذا ہماری ایجنسیوں نے اس کیس کو نہائت عمدگی سے ہینڈل کیا۔ پہلے اسکے رابطے اور سہولت کاروں تک رسائی حاصل کی اورانہیں اپنے زیرِ اثر لائے۔ پھر انہی خطوط پر اپنے ’’خاص لوگ‘‘ ناراض بلوچوں کے روپ میں اُسے دینے شروع کردیئے۔وہ اپنی بھرتی اور خفیہ پن پر خاصا مطمئن ہو گیا اور ان نوجوانوں میں سے کچھ کی تربیت اور انڈیا یاترا بھی اس نے کروائی۔اس طریقہ کار سے ہم نے اُسکے نیٹ ورک پر خاصاکنٹرول حاصل کرلیا جس کی بنا پر حکومتی اقدامات زیادہ موثر ہونے لگے اور بلوچستان میں حالات بہتر ہونا شروع ہوگئے۔اُسکے رابطے کمزور ہوتے چلے گئے اور اسکی طرف سے ہندوستان پہنچنے والی اطلاعات اکثر غلط ثابت ہونے لگیں۔ اِدھر ہمارے قبل از واردات اپریشن کامیاب ہوئے اور اُدھر افغانستان میں لگائے گئے انڈین قونصل خانوں کا سلسلہ ناکام ہوتا گیا۔اس سے پہلے کہ انڈیا اسے یہاں سے ہٹاتا ہم نے اسے گرفتار کر لیا۔ہماری ایجنسیوں نے اس کے ہاتھوں سے ہی اسکا نیٹ ورک تباہ کروا کر گوادر، CPECاور اس علاقے کو محفوظ کرلیا۔قوم ان پر بجا فخر کرسکتی ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان کی ایجنسیاں افغانستان اور اس سے ملحقہ پاکستانی علاقے میں بُری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔نہ تو وہ افغان نیشنل آرمی کھڑی کر سکے، نہ بلوچستان میں قدم جمے اور نہ ہی علاقے کے سکیورٹی کوارڈینیٹر کے طور پر کوئی پوزیشن حاصل کرسکے ۔نتیجتاًافغان امن کوششوں میں انڈیا کو پہلے کی طرح پیش پیش رہنے کی بجائے مکمل طور پر نکال دیا گیا۔اب چار ملکی ڈائیلاگ کی صورت میں معاملہ پاکستان ،افغانستان، چین اور امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ تاہم اس نے سفارتی سطح پر ایران اور عرب ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھے ہوئے ہیں اور وہ ان ممالک یا دیگر کسی کے راستے پاکستان کے اندر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا رہیگا۔
عین اسوقت جب ہمارے ملک کے اندر اسکی تخریب کاری اور ہمارے خلاف پٹھانکوٹ جیسے ڈرامے کا پراپیگنڈا کھل کر دنیا کے سامنے آ چکے ہیں، ہمارے جذبات کے مالک ہمارے بڑے بھائی سعودی عرب نے مسلم کش مودی کو سرزمینِ حجازِ مقدّس کا سب سے بڑا سِول اعزاز ’’شاہ عبدالعزیز آرڈر ‘‘ پہنایا۔یہ اعزاز پہلے صرف امریکہ ۔ برطانیہ۔ روس اور جاپان کے پاس ہے۔پانچ معاہدے بھی سائن ہوئے جن میں اقتصادی قربت کے علاوہ Terror Financing، منی لانڈرنگ اور انوسٹمنٹ پر انٹیلی جنس شیئرنگ شامل ہے۔ان معاہدوں کو انڈیا بالواسطہ کسطرح ہمارے خلاف استعمال کرتا ہے اس کیلئے بھی محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
انڈیا نے دوستی کا جو راگ الاپ رکھا ہے اس کے شور میں وہ ہمارے اندر ٹیکنالوجی ایکسپرٹ ڈالنے اور عرب ممالک کے ذریعے سوسائٹی کے دیگر شعبوں میں Penetrate کرنے کی کوشش کریگا۔ان ممالک سے اپنے جاسوس کلبھوشن کی رہائی کیلئے بھی ہم پر بوجھ ڈلوائے گا۔ ابھی سے سوشل میڈیا پر کچھ جانے پہچانے نان سٹیٹ ایکٹرز کو کہتے سنا ہے کہ ’را‘ دہشت گردی میں ڈائریکٹ ملوث نہیں ہوتی وغیرہ۔گویا ان کیلئے ہمارے اپنے ملک میں بھی زمین ہموارکرنا شروع کردی گئی ہے۔
چالیں اور دباؤ تو دنیا کا معمول ہے ہمیں ہر حال میں اپنے قومی مفادات کا دفاع کرنا ہے۔وزیرِاعظم کی زیر صدارت 6 اپریل کو منعقد کی گئی نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ میں بھی غیر ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان میں کارروائیوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ آج ہمارے پاس کلبھوشن کی سوچ سے بھی زیادہ معلومات ہیں جنھیں صحیح طریقے سے استعمال میں لانا ہوگا۔ان معلومات کی بنا پر بین الاقوامی فورم پر بھارت کی تخریب کاری کا کیس ضرور لیکر جانا چاہیے مگر کلبھوشن کا نہیں۔اسے پاکستان میں ہی سزادینی ہوگی۔انڈیا چاہے گا کہ اسکا کیس بھی بین الاقوامی فورم پر لایا جائے کیونکہ اسطرح اُسے آسانی سے نکالا جا سکتا ہے۔ اسلامی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش جاری رہنی چاہیے مگر یہ کبھی بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ سب نیشن سٹیٹیں ہیں اور کوئی بھی کسی کیلئے کبھی جذباتی نہیں ہوا۔