ثالثی کیلئے پاکستان کا امریکہ‘ اقوام متحدہ اور ایران کی پیشکش کا خیرمقدم اور بھارت کا اسرائیل کیساتھ دفاعی تعاون کا سب سے بڑامعاہدہ
پاکستان نے بھارت کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے کیلئے امریکہ‘ ایران اور اقوام متحدہ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم سے توجہ ہٹانے کیلئے آئے روز لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کررہی ہے‘ بھارتی معاشرے میں انتہاء پسندی تیزی سے فروغ پا رہی ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلہ میں دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے گزشتہ روز اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ عالمی برادری کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں کئے جانیوالے مظالم اور ایل او سی کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے باور کرایا کہ بھارت کے جنگی عزائم خطے کی سلامتی کیلئے خطرناک ہیں جبکہ اسکی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی ڈاکٹرائن جھوٹ پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی بات کی کیونکہ اسکے خوفناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی منفی حکمت عملی بقائے باہمی کے اصولوں کیخلاف ہے جبکہ ہم ہمسایہ ممالک سمیت پوری دنیا کے ساتھ دوستانہ مراسم چاہتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی باہمی اعتماد اور مفاد پر مبنی ہے‘ بھارت پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اپنی دہشت گردی چھپا نہیں سکتا۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل سے ہی بہتر ہو سکتے ہیں۔ بھارت ہمیشہ دہشت گردی کو جواز بنا کر مذاکرات سے فرار چاہتا ہے جبکہ وہ خود پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔
اس وقت عالمی قیادتوں اور اداروں کی جانب سے پاکستان بھارت کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اور اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے اور امریکی صدر ٹرمپ سمیت عالمی قیادتیں پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعات کے حل کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کررہی ہیں تو اس کا پس منظر اسلحہ کی دوڑ میں سب سے آگے نکلنے کی کوششوں میں مصروف بھارت کی جنونی ذہنیت ہے اور اقوام عالم کو بجا طور پر یہ خطرہ لاحق ہوچکا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کشیدگی بڑھی تو یہ ان دونوں ایٹمی ممالک میں نئی جنگ پر منتج ہوگی جو روایتی جنگ کے بجائے ایٹمی جنگ ہوگی اور اس سے ہونیوالی تباہی ان دونوں ممالک تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے خطے اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ چنانچہ تباہی کے اس خطرے کو ٹالنے کیلئے عالمی ادارے اور عالمی قیادتیں پاکستان اور بھارت دونوں پر زور دے رہی ہیں کہ وہ اپنے تنازعات باہمی دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرلیں۔ ان مذاکرات کو یقینی بنانے کی خاطر عالمی قیادتوں اور اداروں کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کی جارہی ہے جو پاکستان بھارت کشیدگی کے تناظر میں اصل حقائق سے دانستاً صرفِ نظر کرنے کے مترادف ہے۔ عالمی قیادتوں کو پہلے اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ کشمیر کا تنازعہ کھڑا کس نے کیا اور پھر اس مسئلہ کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں میں متعین کی گئی راہ سے انحراف کس نے کیا اور کس نے ان قراردادوں پر اب تک عملدرآمد نہیں ہونے دیا‘ جس کشمیر کا تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا‘ اسکے بڑے حصے پر اپنا فوجی تسلط کس نے جمایا اور پھر اسے اپنا اٹوٹ انگ کس نے قرار دیا۔ اسی طرح گزشتہ سات دہائیوں سے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد کرنیوالے کشمیری عوام کے سینے کس نے گولیوں سے چھلنی کئے جبکہ اب تک لاکھوں بے گناہ کشمیری عوام اس بھارتی درندگی کی بھینٹ چڑھ کر جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ اسکے باوجود کشمیریوں کی جلائی شمعٔ آزادی کی لو مدھم نہیں ہو سکی اور آج کشمیریوں کی تیسری نسل ایک نئے جذبے کے ساتھ بھارتی فوجوں کے آگے سینہ سپر ہے۔
اسی طرح عالمی اداروں اور قیادتوں کو پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کے کردار کی پیشکش کرتے ہوئے اس امر کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ کیا پاکستان نے کبھی مذاکرات سے انکار کیا ہے اور ہر سطح کے مذاکرات کی میز اب تک کس نے الٹائی ہے۔ اگر عالمی قیادتیں پاکستان بھارت تنازعات کا پس منظر جاننے کا تھوڑا سا تردد کرلیں تو اس میں پاکستان مظلوم‘ معتوب‘ مغضوب اور بھارت جارح‘ ہٹ دھرم‘ جنونی اور خطے کے امن و امان کے حوالے سے اپنی سوچ میں انتہاء پسند نظر آئیگا۔ اگر پاکستان پہلے ہی بھارت کے ساتھ مذاکرات کیلئے ہمہ وقت تیار ہے تو اسے ثالثی کی پیشکش کرکے جنونی توسیع پسندانہ عزائم کے حوالے سے بھارت کے برابر کیوں رکھا جارہا ہے۔ ضرورت تو اس وقت بھارت کی اسلحہ کی دوڑ کے آگے بند باندھنے‘ کشمیر پر اسکی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کا توڑ کرنے‘ اسکے جارحانہ جنونی ہاتھ روکنے اور اسکے خطہ میں توسیع پسندانہ عزائم کا سدباب کرنے کی ہے۔ اگر بھارت نے اب تک پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر باہمی تنازعات طے کرنے کی عالمی قیادتوں اور اداروں کی ہر تجویز اور ثالثی کی ہر پیشکش رعونت کے ساتھ ٹھکرائی ہے جیسا کہ گزشتہ روزبھی بھارتی دفتر خارجہ کی جانب سے ٹرمپ کے ثالثی کے کردار کے حوالے سے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کی میڈیا سے گفتگو کا رعونت بھرا جواب دیا گیا ہے اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے امکانات کو مسترد کیا گیا ہے تو بھارت کا یہی طرز عمل عالمی قیادتوں اور اداروں کیلئے چشم کشا ہونا چاہیے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ عالمی اداروں اور قیادتوں کی جانب سے پاکستان بھارت بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اور دونوں ممالک پر دوطرفہ مذاکرات کیلئے زور دیا جارہا ہے جس پر پاکستان کی جانب سے تو دوطرفہ مذاکرات کی ہر عالمی تجویز کا خیرمقدم کیا جارہا ہے مگر بھارت اس کا جواب اسرائیل کے ساتھ تاریخ کا سب سے بڑا دو ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ کرکے دے رہا ہے جس کے تحت اسرائیل بھارت کو جدید میزائل ڈیفنس سسٹم فراہم کریگا جبکہ اس دفاعی معاہدے میں طویل فاصلے تک زمین سے فضا میں مار کرنیوالے میزائل‘ لانچرز اینڈ کمیونی کیشنز اور کنٹرول ٹیکنالوجی کی بھارت کو فراہمی بھی شامل ہے۔ کیا عالمی قیادتوں کو اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ بھارت کی یہ جنگی جنونی تیاریاں صرف پاکستان کی سلامتی کیخلاف ہیں جسے وہ پہلے ہی ایک سازش کے تحت دولخت کرچکا ہے اور اب باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے۔ ان بھارتی عزائم کی موجودگی میں کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کیلئے سیدھے سبھائو مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیگا۔ اس حوالے سے عالمی قیادتوں اور اداروں کی خواہشات اپنی جگہ مگر زمینی حقائق اسکے قطعی برعکس ہیں اور پھر اس حقیقت کو کیسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان بھارت تنازعات کے حل کیلئے ثالثی کی پیشکش کرنیوالے عالمی قائدین نے خود بھارت کے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے معاہدے کرکے پاکستان کی سلامتی کیخلاف اسکے توسیع پسندانہ جنونی عزائم میں اسکی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی ہے اس لئے اس دہرے معیار سے ہٹ کر ہی عالمی قیادتیں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی خاطر ثالثی جیسا کوئی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اگر عالمی قیادتیں بھارت سے کشمیریوں کے استصواب کے حق سے متعلق یواین سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں یکسو ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اقوام متحدہ کی ان قراردادوں پر عملدرآمد نہ ہو اور دیرینہ مسئلہ کشمیر حل نہ ہو جبکہ اس مسئلہ کا کشمیری عوام کیلئے قابل قبول حل ہی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی ضمانت بن سکتا ہے۔
پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی عزائم کو بھانپ کر تو برادر مسلم ممالک اور انکی نمائندہ تنظیموں او آئی سی اور عرب لیگ کو بھی پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور بھارت کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تاریخ کے سب سے بڑے دفاعی معاہدے کی مذمت کرنی چاہیے مگر اس سے بڑی ریاکاری اور کیا ہو سکتی ہے کہ متعدد عرب ممالک خود اسرائیل کے ساتھ دفاعی تعاون اور مشترکہ فوجی مشقوں کے معاہدے کئے بیٹھے ہیں جبکہ اسرائیل نے معصوم و بے گناہ فلسطینی عوام کو اسی طرح ظلم و تشدد کے ذریعہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے راستے سے ہٹانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جیسے بھارت کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو دبانے کیلئے ان پر ننگ انسانیت جرائم اور مظالم کا ارتکاب کررہا ہے۔ اب تو امریکی نیٹو اتحاد کی طرح مسلم ممالک کا 34 رکنی فوجی اتحاد بھی قائم ہوچکا ہے اور خوش قسمتی سے مسلم نیٹو افواج کی قیادت پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف سنبھالنے والے ہیں جن کے ساتھ اس حوالے سے سارے معاملات طے پاچکے ہیں اور پاکستان بھی‘ جو خود بھی اس فوجی اتحاد کا حصہ ہے‘ جنرل راحیل شریف کی مسلم نیٹو افواج کی قیادت کیلئے رضامندی کا اظہار کررہا ہے تو توقع یہی کی جانی چاہیے کہ پاکستان کیخلاف اسرائیل بھارت باہمی تعاون سے ہونیوالی کسی جارحیت کا ٹھوس جواب دینے کیلئے مسلم اتحادی افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوںگی اور اسکی سلامتی کیخلاف ہر سازش اور جارحیت کو ناکام بنائیں گی۔ صرف اسی حکمت عملی سے بھارتی جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم کا مؤثر توڑ کرکے اسکے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو لاحق ہونیوالے خطرات ٹالے جاسکتے ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ عالمی قیادتیں اور ادارے اور بالخصوص مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیمیں مصلحتوں اور منافقتوں کے لبادے اتار کر زمینی حقائق کی روشنی میں برصغیر اور مشرقِ وسطیٰ میں جارح کا ہاتھ روکنے کے عملی اقدامات اٹھائیں بصورت دیگر بھارت ثالثی کی عالمی پیشکشوں کو پہلے کی طرح ہوا میں اڑاتا اور علاقائی اور عالمی سلامتی کیلئے خطرات بڑھاتا رہے گا۔