مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا نے ہری پور، پشاور کے بعد سوات میں بہت بڑا جلسہ منعقد کر کے نہ صرف اپنی سیاسی قوت کا بھرپور اظہار کیا ہے بلکہ سوات جیسے خطرناک علاقے میں تاریخی جلسہ منعقد کرنے سے پورے ملک میں مسلم لیگ (ن) کی ’’واہ واہ ‘‘ہوگئی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) پختونخوا میں دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے12اکتوبر1999ء کے ’’پرویزی مارشل لائ‘‘ میں سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ(ن) کوا ٹھانا پڑا ۔مسلم لیگ (ن) جو ملک کی سب سے بڑی جماعت تھی اس کا شیرازہ بکھیر دیا گیا مسلم لیگ(ن)خیبر پختونخواہ میں ہزارہ ڈویژن تک محدود رہ گئی۔ سابق وزیراعظم و مسلم لیگ (ن) کے قائد محمدنواز شریف نے سوات کی تاریخ کے بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا تو جلسہ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اس جلسہ میں میاں نواز شریف اور مریم نواز کی جس طرح پذیرائی کی گئی وہ نواز شریف مخالف عناصر کے لئے حیران کن اور پریشان کن تھی ۔ اس جلسہ کا کریڈٹ امیر مقام کو جاتا ہے جن کی شبانہ روز محنت نے مسلم لیگ(ن) کو ’’ پشتون بیلٹ ‘‘ میں مقبول جماعت بنا دیا ہے یہی وجہ ہے میاں نواز شریف نے امیر مقام کی کارکردگی سے خوش ہو کر ان کو آئندہ انتخابات میں خیبر پختونخوا کی وزارت اعلیٰ کے لئے مسلم لیگ (ن) کا امیدوار نامزد کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ سینیٹ کے انتخابات میں آصف علی زرداری اور عمران خان کا’ غیر اعلانیہ‘‘ انتخابی اتحاد مسلم لیگ (ن) کے جلسوں کا موضوع گفتگو بنا ہے میاں نواز شریف اپنے دونوں سیاسی حریفوں اور ریاستی اداروں سے چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں آصف علی زرداری اور عمران خان دونوں کا ٹارگٹ میاں نواز شریف ہیں ۔ اگرچہ عمران خان اپنے جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں آصف علی زرداری پر شدید تنقید کر کے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ان کے سخت مخالف ہیں لیکن سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لئے اسی امیدوار کو ووٹ دئیے جن کو آصف علی زرداری کی حمایت حاصل تھی ان میں سے ڈپٹی چیئرمین کے لئے توامیدوار ہی پیپلز پارٹی کا تھا اس لئے میاں نواز شریف یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کے ارکان نے ’’تیر‘‘ کو ووٹ دئیے۔ اگرچہ عملی سیاست میں عمران خان اور آصف علی زرداری کی الگ الگ پارٹیاں ہیں اور وہ دونوں ایک دوسرے پر ’’گولہ باری‘‘ کرتے رہتے ہیں لیکن’’ نواز شریف دشمنی ‘‘میں دونوں ایک ’’صفحہ‘‘ پر ہیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ میاں نواز شریف اس خفیہ اتحاد کو عوام کے سامنے ایکسپوز کرنے کے لئے اپنے جلسوں میں ’’زرداری نیازی ۔ بھائی بھائی ‘‘ کے نعرے لگوا رہے ہیں میاں نواز شریف کے جلسوں کا سب سے مقبول نعرہ ’’ زرداری نیازی ۔ بھائی بھائی ‘‘ بن گیا ہے جبکہ عمران خان ،نواز شریف اور آصف علی زرداری کی مخالفت کر کے میدان سیاست میں اپنے لئے ’’گنجائش ‘‘پیدا کرنے کی کی کوشش کررہے ہیں میاں نواز شریف دونوں کو ایکسپوز کر کے ان کے لئے گنجائش کم کرنا چاہتے ہیں انتخابی مہم میں جہاں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگے گا اب وہاں ’’زرداری نیازی‘‘ بھائی بھائی کی گونج بھی سنائی دے گی میاں نواز شریف عام طورپر جلسوں میں ’’کپتان ‘‘ کو نام لئے بغیر تنقید کا نشانہ بناتے تھے لیکن جب سے سیاسی ماحول میں گرما گرمی پیدا ہوئی ہے اور مسلم لیگ(ن) کے ’’ایلکٹیبل ‘‘کے بازو مروڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت پر مجبور کیا جارہا ہے میاں نواز شریف کے طرز عمل میں بھی قدرے سختی آگئی ہے سوات کے کامیاب جلسے کے بعد امیر مقام کا بازو مروڑنے کے لئے انہیں نیب نے طلب کر لیا ہے امیر مقام نے نیب کی طلبی پر کہا ہے کہ ’’ ایسا تو ہو تا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘ اب نیب کو بھی یاد آگیا ہے کہ امیر مقام نے اپنی آمدنی سے زائد اثاثے بنا رکھے ہیں ‘‘ نیب کی طلبی کے باوجود امیر مقام کا حوصلہ بلند ہے۔ اب تو میاں نواز شریف نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو تجویز پیش کر دی ہے کہ شفاف اور غیر جانبدار انہ انتخابات کے انعقاد کے لئے نیب کی سرگرمیاں معطل کر دی جائیں تاکہ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لئے لوگوں کے بازو نہ مروڑے جائیں ۔ خواہ اس کے لئے صدارتی آرڈننس ہی کیوں نہ جاری کرنا پڑے۔ عمران خان جو اپنی صبح کا آغاز میاں نواز شریف کے خلاف الزام تراشی سے کرتے ہیں کو میاں نواز شریف نے سوات کے جلسے میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ الزام خان فارغ ہونے والا ہے خیبرپختونخوا میں ہماری حکومت ہوگی،کے پی کے عوام کو پیشگی مبارکباد دیتا ہوں،عمران خان نے 5 سال میں خیبر پختونخوا میں تو کچھ نہیں کیا لیکن اپنی اے ٹی ایم مشین جہانگیر ترین کی دولت ختم کر دی،عمران خان نے گالی گلوچ کی سیاست کی‘‘۔ انہوں نے خیبر پختونخوا کے عوام کو مخاطب ہو کر کہا کہ ’’ اگر تم نے ترقی دیکھنی ہے تو پنجاب اور لاہور آئو ‘‘،عمران خان نے 5 سال دھرنوں، الزامات اور جھوٹ بولنے میں گنوا دئیے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں میٹرو بس کا خاص طور پر ذکر کیا ’’عمران خان میٹرو بس کو جنگلا بس کہتے تھے اور اب وہی بس انہوں نے پشاور میں شروع کر دی ہے، لاہور کی میٹرو بس پر 50 ارب روپے اور راولپنڈی کی میٹرو بس پر 41 ارب روپے کے لگ بھگ خرچ ہوئے لیکن پشاور میٹرو بس پر 71 ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں ، یہ لوگ قوم کا پیسہ ہڑپ کر رہے ہیں،‘‘ عمران خان جن کی سیاست کی بنیاد ہی الزام تراشی پر ہے جب الزام تراشی پر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے عدالت میں مقدمہ درج کیا تو عدالت کے مسلسل نوٹس جاری ہونے کے باوجود عدالت سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں بلوچستان ،کراچی ،فاٹا اور سوات میں جہاں قیام امن کا کریڈٹ مسلح افواج کے ان افسروں اور جوانوں کو جاتا ہے جنہوں اپنا آج قوم کے کل کے لئے قربان کر دیا ہے وہاں اس وقت کی سیاسی حکومت کے سربراہ میاں نواز شریف کو بھی جاتا ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج کی پوری قوت سے سیاسی طور پر پشت پناہی کی۔ سوات کے کبل گرائونڈ میں جلسے میں جہاں میاں نواز شریف نے سوات کے عوام کے جوش وخروش کا ذکر کیا ہے، وہاں انہوں نے ملالہ یوسف زئی کی سوات میں واپسی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ آج سوات کے حالات اس قدر بہتر ہو گئے ہیں کہ ملالہ یوسف زئی نے سوات کی سرزمین پر دوبارہ قدم رکھا اور اپنے آبائی گھر گئی ۔ مریم نواز کو مسلم لیگ(ن) کے سوشل میڈیا اور دیگر جلسوں سے خطاب میں عوام کی طرف سے بے پناہ رسپانس مل رہا ہے ۔ عوام کی طرف سے ملنے والی پذیرائی نے جہاں ان کا حوصلہ بڑھا دیا ہے وہاں ان کے لب و لہجہ میں قدرے سختی بھی بڑھ گئی ہے ’’ ٹویٹ ‘‘پر پیغامات کے مقابلے میں جلسوں میں ان کا ریاستی اداروں کے بارے میں طرز عمل بعض اوقات ’’ریڈ لائن ‘‘ عبور کرنے لگتا ہے تاہم ایک بات واضح ہے مریم نواز نے عوامی سطح پر اپنے آپ کو ایک مقبول لیڈر کے طور پر متعارف کرا دیا ہے ان کے لئے عوام کے دلوں میں پذیرائی پائی جاتی ہے کاش ! وہ سب کچھ سینئر لیڈر شپ کی ’’آشیرباد‘‘ ا ور’’ر رہنمائی ‘‘ سے کریں تو کوئی طاقت ان کے آگے بڑھنے میں حائل نہیں ہو سکتی ۔ مریم نواز نے صحیح کہا ہے کہ’’ ہم سے انتقامی فیصلوں کے احترام کی توقع نہ رکھی جائے،کبھی کہتے ہیں نواز شریف اداروں سے تصادم کرتے ہیں، کبھی کہتے ہیں ڈیل کررہے ہیں، تمہاری کون سی بات درست ہے، ہمیں ڈیل کی ضرورت نہیں بلکہ دلیل کی ضرورت ہے جہاں بتایا جائے کہ الزام میں کس حد تک صداقت ہے، زرداری اور عمران جس جھنڈے کے نیچے اکٹھے ہوئے وہ عوام کا نہیں، سینیٹ انتخاب میں عمران نے زرداری کے قدموں میں ووٹ کی پرچی رکھ دی، عوام کے ووٹ کے خلاف سازش میں عمران خان اور کے پی کے حکمران مہرہ بن کر استعمال ہو ئے ہیں۔ میاں نواز شریف احتساب عدالت کے فیصلے سے قبل زیادہ سے زیادہ جلسوں سے خطاب کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ ایک سخت جان لیڈر ہیں پچھلے 6،7ماہ کے دوران احتساب عدالت میں 50 سے زائد بار پیش ہو چکے ہیں جدید پاکستان کے معمار نے ترقیاتی کاموں کے سنگ بنیا د، افتتاح اور معائنہ کے لئے جتنا ہوائی سفر کیا ہے ممکن ہے احتساب عدالت میں’’ پیشیاں ‘‘اس کا ریکارڈ توڑ دیں ۔ اب تو میاں نواز شریف کو کم وبیش روز ہی عدالت میں پیشی کے لئے لاہور سے اسلام آباد آنا پڑتا ہے میاں نواز شریف یہ برملا کہہ چکے ہیں کہ وہ’’ جیل یاترا ‘‘سے خوفزدہ نہیں۔ انہیں جس نے جیل ڈالنا ہے ڈال دے وہ صورت حال سے گھبرا کر ’’ سرنڈر‘‘ کرنے والے نہیں انہوں نے اپنے سیاسی و غیر سیاسی مخالفین کو مخاطب ہو کر کہا ہے کہ ’’وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں وہ مقابلہ کریں گے ‘‘ لہذا ان کے سیاسی عزم و حوصلہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کسی’’ این آراو‘‘ کی تلاش میں نہیں ۔وہ وقت کے ’’جبر‘‘ میں سیاسی طور پر زندہ رہنے کا سلیقہ رکھتے ہیں انہوں نے جنرل مشرف کی ’’اٹک جیل‘‘ کی صعوبتیں برداشت کر لیں وہ اب جیل یاتراسے خوفزدہ نہیں۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر دکھی ضرور ہیں لیکن حوصلہ نہیں ہارا۔ ’’مفاہمت اور کمپرومائز ‘‘ ان کی سیاسی ڈکشنری کا حصہ نہیں ۔ انہوں نے مفاہمت کا مشورہ دینے والے دیرینہ ساتھیوں سے ہی فاصلہ پیدا کرلیا ہے جو ختم نہیں ہو پا رہا۔
نواز شریف کا نیا نعرہ ۔’’زرداری نیازی بھائی بھائی‘‘
Apr 08, 2018