دوسرے مطالبات اور دھرنے بھی بہت رنگ لا رہے ہیں مگر ایک بڑا مطالبہ مچھروں کے خلاف سپرے کا بھی ٹاک آف دی ٹاؤن ہے۔ جب تک گرمی اپنے جوبن پر نہیں پہنچتی تب تک مچھروں کا راج یقینی ہے۔ ابھی کل کی بات لگتی ہے پنجاب بھر میں ڈینگی مچھروں اور پنجاب حکومت کی ٹیموں میں سخت مقابلہ ہوتا رہا۔ اگرچہ اس مقابلے میں چھوٹی بڑی بہت سی قیمتی جانوں کا نقصان بھی ہوا لیکن ڈینگی کو شکست ہوئی۔ اس شکست میں ایک اہم کردار وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف، وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق اور ان کی ٹیم کا تھا تو ساتھ ہی وہ پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں سرکاری ٹیموں کے شانہ بشانہ آزاد ویلفیئر فاؤنڈیشن لاہور کے صدر محمد انیب ظفر کی سربراہی میں ان نوجوانوں کا کردار تھا جو بلا معاوضہ میدان میں نکلے پنجاب حکومت نے ڈینگی جیسی وبا اور مصیبت کے خاتمے کے بعد کام چھوڑا نہیں بلکہ محکمہ صحت نے دوسرے امراض سے عوام کے بچاؤ کے منصوبے بنانے کے ساتھ ساتھ ڈینگی اور بخار کی دوسری اقسام سے بچانے کے لئے باضابطے شعبے قائم کئے۔ یہ جو تمام بڑے شہروں کی طرح لاہور کے تمام گلی کوچوں میں گھروں کے دروازے اور درودیوار اشارتی زبان سے بھرے بھرے نظر آتے ہیں یہ سب انہی سروے کرنی والی خواتین و حضرات کی ٹیموں کے فرائض کی انجام دہی کے نشانات ہیں جو ہفتے میں ایک سے زیادہ بار ہر گھر کے اندر تک جھانکتی ہیں زبانی پیغام رسانی کرتی ہیں اور جہاں ڈینگی کے آثار ملیں اس کا تدارک کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ اب اگرچہ شہر میں ہر طرح کے مچھر ایک بار پھر مائل بہ پرواز ہیں لیکن ابھی ڈینگی کی ہاؤ وہو سنائی نہیں دے رہی۔ ان دنوں ملکی سیاسی صورتحال بھی حکومت کی بہت سی توجہ سمیٹے ہوئے ہے۔ عام انتخابات کی آمد آمد ہے لیکن عوامی صحت پھر بھی اہم مجالس میں موضوع سخن ہے۔ بزم منشور کے صدر سپریم کورٹ کے ممتاز وکیل اشتیاق چوہدری، پاکستان مزدور محاذ کے سیکرٹری جنرل شوکت چوہدری اور لاہور کے صدر محمد اقبال ظفر کو اس بات پر تشویش ہے کہ پاکستان میں صحت کے مسائل صرف عام آدمی کے مسائل ہیں اور سرکاری سطح پر اس سلسلے میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے لیکن ضرورت کے مطابق وسائل فراہم نہیں کئے جا رہے۔ امرا تو اپنا علاج معالجہ پرائیویٹ سطح پر اور اس سے بھی ایک قدم آگے جا کر بیرون ملک کروا لیتے ہیں۔ برسر اقتدار سیاستدانوں اعلیٰ سرکاری حکام اور با اثر طبقے کو سرکاری سطح پر بیرون ملک علاج معالجے کی سہولتیں حاصل ہیں لیکن اصل معالجہ انہی عوام کا ہے جن کے دروازوں پر سرکاری ٹیمیں وقفے وقفے سے وزٹ کر کے گل بوٹے بناتی رہتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں بلا کسی کنٹرول کے بڑھتی ہوئی آبادی کے صحت سمیت ہر طرح کے مسائل اور ضروریات کا کما حقہ، حل شاید کسی کے پاس بھی نہ ہو مذہبی راہنما یہ تو کہتے ہیں کہ ملک میں اسلامی نظام لایا جائے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اسلام کو انہوں نے جس طرح بے شمار ٹکڑوں میں تقسیم کیا ہے تو کون سے ٹکڑے کو مؤثر سمجھا جائے۔ سیاسی راہنما بھی نعرے، وعدے اور منشور کی حد تک بہت کچھ بدلنے کی بات تو کرتے ہیں مگر جب کسی کو عملی طور پر موقع ملتا ہے تو ’’ڈھاک کے وہی تین پات‘‘ والی بات سامنے آتی ہے۔ بات مچھروں ڈینگی اور عوامی صحت کی ہو رہی تھی تو اس ضمن میں عوامی سطح پر زیر بحث آنے والی ایک تجویز کو محکمہ صحت کے حکام وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق بلکہ وزیر اعلیٰ میاں شہبازشریف تک پہنچانا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ گھروں، دکانوں اور کاروباری مراکز تک حکومت کی متعلقہ ٹیمیوں کی طرف سے یہ پیغام مؤثر طریقے سے پہنچ چکا ہے کہ پانی جمع نہ ہونے دیا جائے۔ فریج، اے سی، گملوں، پرانے ٹائروں پالتو پرندوں کی کٹوریوں پر مسلسل نظر رکھی جائے۔ اب جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے شہر بھر کے تمام گلی کوچوں میں پارکوں میں روشوں پر مچھر مار سپرے ۔ہو یہ رہا ہے کہ گھروں میں ادھر لوگ اپنے وسائل سے سپرے کر کے مچھر ختم کرتے ہیں اور دروازے کھلتے ہی باہر سے مچھروں کی تازہ دم ٹیمیں اندر داخل ہو جاتی ہیں۔ پارکوں میں پانی کھڑا جگہ جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ حکومت پنجاب ہر معاملے میں لیڈ کرنے کی شہرت رکھتی ہے تو آئندہ چند دنوں میں صحیح معنوں میں مؤثر دوائی کے ساتھ پارکوں میں اوپر نیچے سپرے کروایا جائے۔ لوگوں کو یہ محسوس ہو کہ کام صرف دروازوں پر گل بوٹے بنانے تک محدود نہیں بلکہ خادم پنجاب ڈینگی کے خلاف مہم کی طرح اب ہر طرح کے مچھروں کے خلاف جنگ میں بھی پیش پیش ہیں۔ ایسا کر کے، کروا کر تو دیکھئے لوگ کس طرح اچھے کام کی داد دیتے ہیں۔