بلوچستان اور کشمیر، پاکستانی میڈیا لکیر کا فقیر

حریت رہنماء یاسین ملک کی اہلیہ اور پاکستان کی بیٹی مشال ملک نے کہا ہے کہ ’’بھارتی فوج روزانہ کی بنیاد پر نہتے کشمیریوں کا قتل کر رہی ہے کشمیر کے عوام پاکستان کی مدد کی امید رکھتے ہیں اگر پاکستان نے کشمیر کی مدد نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب بھارت کی طرف سے پاکستان کا پانی روک دیا جائے گا اور پاکستان کو پینے کا پانی بھی میسر نہیں رہے گا‘‘ مشال نے جہاں ایک طرف پاکستان سے کشمیریوں کی عملی مدد کی اپیل کی ہے وہاں بھارتی ان عزائم سے پردہ بھی اٹھایا ہے جن سے پاکستان کا ہر شہری بخوبی آگاہ ہے لیکن یہ آگاہی پاکستانیوں کی بہت بڑی اکثریت کو بے حسی اور بے حمیتی کے گرداب سے نکالنے میں ناکام رہی ہے جس دن شوپیاں اور لگام میں کشمیریوں کا قتل عام اور سینکڑوں کو زخمی کیا جا رہا تھا لاہور سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں لاکھوں افراد بھارتی فلمیں دیکھنے کے لئے سینمائوں میں قطاروں میں کھڑے تھے۔ میرے قارئین سوال اٹھا سکتے ہیں اس کی سوئی بھارتی فلموں پر ہی اٹکی ہوئی ہے جب سے بھارتی ذرائع ابلاغ نے خود تصدیق کی ہے کہ پاکستان میں لگنے والی بھارتی فلموںکی آمدنی کا آٹھ فیصد مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی میں مصروف بھارتی فوج کو دیا جاتا ہے اور کشمیری لیڈروں کی جانب سے ان فلموں کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی ہے بے شک میری سوئی اس پر اٹکی ہوئی ہے میرے لئے یہ تکلیف دہ امر کیوں نہ ہو جب بے حمیت پاکستانی بھارتی فلمیں دیکھ کر بالواسطہ طور پر بھارتی فوج کی مالی مدد کا شرمناک ارتکاب کر ہے ہیں یہ سطور گواہ ہیں جماعت علی شاہ کے دورمیں، میں دہائیاں دیتا رہا ہوں بھارت انڈس واٹرکمیشن کو بے ثمر مذاکرات میں الجھا کر تیزی سے کشن گنگا ڈیم کی تکمیل کر رہا ہے۔ ان مذاکرات پر لعنت بھیج کر عالمی بنک سے رجوع کیا جائے مگر عالمی بنک سے اس وقت رجوع کیا گیا جب کشن گنگا ڈیم تکمیل کے آخری مراحل میں تھا اور بھارت کی جانب واضح رجحان رکھنے والی عالمی بنک نے اسے بہانہ بنا کر حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار کردیا۔ یہی کچھ بگلیہار ڈیم کے بارے میں ہوا۔ حالانکہ اس ڈیم کی بنیادیں رکھنے سے پہلے بریگیڈئر شفیع مرحوم اپنے خطاب، پمفٹوں، نقشوں وغیرہ کے ذریعہ حکمرانوں اور عوام کو متوجہ کرنے کی کوشش ناتمام کرتے رہے مگر حکمرانوں اور متعلقہ حکام کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اب پھر بھارت نے انڈس واٹرکمیشن سے مذاکرات میں دوبارہ الجھانے کا چکر چلایا ہے لیکن میرا یقین ہے جماعت علی شاہ کی طرح مہر علی شاہ کی سربراہی میں یہ مذاکرات بھی بے ثمر اور ان سے وقت کے ضیاع کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
اس یقین کی بنیاد یہ ہے کہ عوام کی بڑی اکثریت بے حسی اور حکمران سمیت تمام قابل ذکر سیاستدان مصلحتوں کا شکار ہیں کیونکہ ان کے ذاتی مفادات امریکہ اور برطانیہ سے وابستہ ہیں اور انہیں ان مفادات کو پہنچنے والے نقصانات کے خدشات نے اسیر کر رکھا ہے۔ بھارت امریکی چھتری تلے ظلم و بربریت کی نئی نئی داستانیں رقم کر رہا ہے اور امریکہ ان تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے جو بھارت کے مظالم کے خلاف مزاحمتی کردار کی شہرت رکھتی ہیں اور پاکستان میں ان تنظیموںکے خلاف کارروائی امریکیوں سے زیادہ سرعت سے کی جاتی ہے۔ افغانستان کے شہر قندوز میں ایک سو حفاظ بچوں کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا گیا۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، آصف زرداری، اور عمران خان سمیت کسی لیڈرکو ایک حرف مذمت کی توفیق نہ ہوئی کیونکہ دونوں صورتوں میں امریکہ کی پیشانی شکن آلود ہونے کے خدشات دامنگیر رہے ویسے ایک پاکستان کے حکمران اور سیاستدان ہی کیا عالم اسلام کے دریائے احساس میں کون سا ارتعاش پیدا ہوا۔ رہا پاکستانی میڈیا تو اس حوالے سے کچھ کہنا خود اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھانے کے مترادف ہے۔ بالخصوص ٹی وی سکرینوں پر اپنا اپنا چورن بیچنے والے جس سرزمین کا کھاتے ہیں اس کے لئے کتنا احساس رکھتے ہیں اس کا اندازہ ڈاکٹر جمعہ خان کی بلوچستان میں ازلی دشمن بھارت کے ایجنٹوں کے خلاف محب وطن بلوچوں کو متحد و مستعد کرنے کی مہم کو نظر انداز کرنے سے لگایا جا سکتا ہے۔ بہر حال مستثنیات سے بھی انکار نہیں۔ ڈاکٹر جمعہ خان کی اس تحریک کا خاص پہلو یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم بلوچوں کو پاکستانی پرچم تلے جمع کر کے بلوچستان میں بھارتی سازشوں کو ناکام بنانا ہے اور بھارت سے ملنے والے ڈالروں کی چکا چوند سے ضمیر کی آنکھیں بند کرنے والے قلیل ترین تعداد میں گمراہ بلوچ حقوق کے نام پر نوجوانوں کو ورغلانے میں کامیاب ہوئے ان نوجوانوں کو واپس قومی و سیاسی دھارے میں شامل کرنا ہے یہ اتنا عظیم ترین مقصد ہے اسے پوری توانائیوں کے ساتھ سپورٹ کیا جانا چاہئے تھا۔ میرے نزدیک ڈاکٹر جمعہ خان کی یہ تحریک درحقیقت بلوچستان میں بھارتی سازشوں کے خلاف کھلی جنگ ہے جس کی کامیابی ہر سچے پاکستانی کی اولین ترجیح ہونی چاہئے مگر ٹی وی سکرینوں پر تماشے کرنے والوںکی سوچ کا دائرہ اتنا محدود ہے کہ انہیں نوازشریف ، زرداری اور عمران سے آگے کچھ سوجھ ہی نہیں رہا ہر ٹاک شو ان پر شروع اور ان پر ہی ختم ہوتا ہے خطے میں کیا ہو رہا ہے۔ پاکستان پر اس کے کیا اثرات ہو رہے ہیں۔ آئندہ کیا اثرات ہوںگے لگتا ہے انہیں اس کا شعور ہی نہیں یا مفادات نے شعور کی وسعتوں کو محدود کر رکھا ہے۔
اوورسیز پاکستانی بلوچ یونٹی کے نام سے قائم یہ تنظیم بیرون ملک بلوچوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر ان مغربی ممالک میں پاکستان کا مقدمہ لڑے گی جو گمراہ بلوچوں کو بھارتی مقاصدکی تکمیل کیلئے فورمز مہیا کرتے ہیں، انہیں سیاسی پناہ دیتے ہیں یا شہریت سے نوازتے ہیں۔ اندازہ کیا جائے جب برسلز، لندن، نیویارک وغیرہ میں گمراہ بلوچ حر بیار مری، برہمداغ بگتی وغیرہ پاکستان مخالف مہم چلائیں اور اس کے جواب میں تمام مغربی ملکوں میں مقیم بلوچ اوورسیز پاکستانی بلوچ یونٹی کے پلیٹ فارم سے پاکستانی پرچم لے کر اس مہم کو تہ خاک پہنچانے کے لئے نکل آئیں تو پاکستان مخالف عالمی طاقتوں اور مغربی میڈیا کے لئے گمراہ کردہ گروہ کی پشت پناہی کب ممکن رہے گی۔ سوال کیا جا سکتا کہ بھارت اور دیگر پاکستان مخالف ممالک کا بلوچستان ہی نشانہ کیوں ہے اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ معدنیات سے مالا مال یہ صوبہ جو گوادر بندرگاہ اور اقتصادی راہداری کے باعث ایک عظیم معاشی انقلاب کی راہ پرگامزن ہے۔ پاکستان کے ریاستی اداروں نے بڑی قربانیاں دے کر بلوچستان میں امن قائم کر کے ہی آئندہ اور یقینی معاشی انقلاب کی راہ ہموار کی آج بلوچستان جسے شورش زدہ بنا دیا گیا تھا۔ پورے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بن رہا ہے۔ ڈاکٹر جمعہ خان کے پلیٹ فارم کے ذریعہ جو واپس آ کر قومی سیاسی دھارے میں شامل ہو گئے۔ بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے ثمرات پائیں گے جو بھارتی ایجنڈے پر کاربند اور بھارت کے پے رول پر ہیں۔ تنہائی اور کسمپرسی کی حالت میں خاتمہ ان کا مقدر ہے چشم فلک بہت جلد یہ عبرت ناک منظر دیکھ لے گی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...