ہم انتہائے شوقِ جاں کچھ نہ بتا سکے
چشمِ رواں تھی آپ کی، آنسو اٹھا سکے
آتش کو آنچ دیجئے دل ہے بجھا بجھا
’’یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے‘‘
جھوٹی تسلیوں سے کیا دل یہ چراغ ہو
نوحۂ غم نہاں رہا کب کیا سجا سکے
اُنکے ہمارے بیچ میں پرخم تھی گفتگو
بعد از تمام بزمِ دل ہم نہ بچا سکے
تکرار موج حسرتیں جا کر کہاں سجی
ہم تو لہو میں ڈوب کر دھوکا ہی کھا سکے
گر،محوِانتظار تھے چوکھٹ اداس پر
آنکھوں سے جو گرے تھے مسلسل چھپاسکے
صحرائی خاک یاں نہیں ساحل کی گردہے
سلکی ہوائوں میں بھی نہ خود کو چھپا سکے
بستا بیمار آپ کا کیسے ، نہ پوچھیئے
دستک پہ ہیں سماعتیں، آ ہی شفا سکے
شمس و قمر ہیں تیرتے پھرتے خلائوں میں
الویرا ذوالجلال کا کرم نبھا سکے