ایک روایتی وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ خاتون اول یعنی اہلیہ وزیراعظم ایک نعمت ہیں۔ انہوں نے ادب سے اہلیہ نہیں کہا انہوں نے بشریٰ بی بی کہا ہے۔ بشریٰ بی بی بڑی زبردست عورت ہے۔ اس کے لیے طرح طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔ اسے ولی اللہ کہا جاتا ہے۔ کچھ شرپسند اسے ایجنسیوں کی عورت کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بشریٰ بی بی سی آئی اے کی عورت ہے؟ حکمرانوں کے خاندانوں میں ان خواتین و حضرات کی موجودگی کی افواہیں پھیلتی رہتی ہیں۔
روایتی وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنی ’’پاکباز‘‘ ازدواجی زندگی کے لیے بہت زبردست باتیں کی ہیں ۔
’’ازدواجی زندگی کے لیے افواہوں میں کوئی صداقت نہیں ۔ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں جدا نہیں کر سکتی۔ عمران خان کی خدمت میں عرض ہے کہ ازدواجی زندگی خود میاں بیوی ختم کرتے ہیں۔ کوئی اور ایسا نہیں کر سکتا۔ پس خواہش کر سکتا ہے یا کوشش کر سکتا ہے۔
اسے چودھری نثار نے مشورہ دیا ہے کہ وہ غیر روایتی وزیراعظم بنیں۔ یہ مشورہ انہوں نے نواز شریف کو بھی دیا تھا مگر وہ نواز شریف کو غیر روایتی کے معانی نہیں سمجھا سکے تھے۔ انہوں نے جنوئن گِلہ کیا ہے کہ نواز شریف نے نہ میرا مشورہ مانا اور نہ مجھے ٹکٹ دیا۔
اس کا ہمیں بھی رنج ہے کہ چودھری نثار جیسے انسان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ بے چارے نواز شریف کو بھی ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا۔ مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف ہیں مگر نواز شریف انہیں صدر نہیں مانتے نہ کام کرنے دے رہے ہیں۔
یہ بات ہمیں اچھی لگی جو عمران خان کے لیے ایک مشورے کے طور پر ہے کہ تم غیر روایتی وزیراعظم ہو۔ عمران کو بھی سمجھانا پڑے گا یا بشریٰ بی بی کی منت کرنا پڑے گی۔ وہ عمران کو سمجھائے، سمجھانے والی باتیں اور بھی ہیں جس کے لئے ڈاکٹر بابر اعوان کی ضرورت پڑے گی۔
نہ مانگنے کے باوجود چودھری نثار کو پنجاب اسمبلی کے لیے ووٹ دیا گیا تھا۔ چودھری صاحب کو یقین تھا کہ انہیں وزیراعلیٰ نہیں بنایا جائے گا۔
ایک دلچسپ بات چودھری نثار نے کی کہ ’’میرے مستقبل کے بارے میں شیخ رشید سے پوچھ لیں۔ شیخ صاحب کچھ بتادیں۔ ان کو بلاول کے بارے میں بتانے سے فرصت نہیں ملتی۔
چلئے ہم غلام سرور سے پوچھ لیتے ہیں مگر انہوں نے تو کبھی چودھری نثار کے لیے بات ہی نہیں کی۔ چودھری نثار نے بھی ان کے لیے اچھی بات نہیں کی۔ سیاسی مخالفت کی عظمت اسی کو کہتے ہیں۔
آج ایک نامور پبلشر اور ادیب آغا امیر حسین اپنے بیٹے کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے اور مجھے اپنی ایک بہت خوبصورت البم اور ضخیم کتاب ’’تاریخ میں سفر‘‘ عطا کی۔ زمانہ قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زمانہ حال تک ایک تاریخ ہے جسے آغا صاحب نے سفر بنا دیا ہے۔ یہ سفر کوئی کوئی آدمی کر سکتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ہمیں ان کا ہم سفر بنا دے۔ یہ سفر پہلی صدی سے پندرہویں صدی ہجری تک آغا امیر حسین نے کیا ہے۔ اللہ ان کی مسافرت کی برکت کو ہمارے پورے زمانے میں پھیلا دے۔ آغا جی کے مطابق سفر ارضی ہو یا پاکستانی‘ دیدہ و بینا کو بہت کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ جو کچھ انہوں نے دیکھا‘ وہ لکھ دیا ہے۔ اس کیلئے انہیں زندگی کے کئی برس لگے ہیں۔ تاریخ اسلام ان کی نظر میں کیا ہے۔ انہوں نے بڑی گہرائی اور سچائی سے بیان کر دیا ہے۔
اس عظیم کتاب کو پڑھنا بھی ایک دلچسپ کام ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ کتاب آغا جی نے کیسے لکھی ہوگی۔ میں ان کی محنت‘ عظمت اور استقامت کو سلام کرتا ہوں۔ ان سے درخواست ہے وہ میرے لئے دعا کریں کہ میں یہ کتاب اسی طرح پڑھ سکوں جس طرح انہوں نے لکھی ہے۔ یہ میری خواہش ہے میرے پاس خواہشوں کا بڑا سلسلہ ہے مگر یہ میری بڑی خواہشوں میں سے ایک بن گئی ہے۔ میں جب بھی مال روڈ ریگل چوک سے گزرتا ہوں تو آغا جی کے کتابی ٹھکانے کی طرف دیکھتا ہوں۔ کتابوں کی دکان کہہ کر اپنی رسوائی نہیں کرنا چاہتا۔ وہ ہمارا فخر ہیں اور ہم ان کی دل و جان سے عزت کرتے ہیں۔
انہوں نے ایک رسالہ بھی شائع کرنا شروع کیا۔ جو ایک خوبصورت تسلسل کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ رسالے کا نام ’’سپوتنک‘‘ ہے۔ ہم نے کبھی اس رسالے کے نام پر غور نہیں کیا۔ ہم نے اس کی اہمیت اور افادیت پر غور کیا ہے۔ آج انہوں نے بتایا کہ سپوتنگ وہ پہلا سیارہ ہے جو فضائوں میں بھیجا گیا تھا۔ میری یہ بات غلط ہے تو کل میں اس کی تصحیح کر دوں گا۔ میں نے انہیں فون کیا وہاں سے کسی محترم خاتون نے فون اٹھایا۔ آغا صاحب سو رہے تھے۔ آخر میں ایک غیر روایتی نامور اور خوبصورت شاعرہ گلفام نقوی کا ایک بہت اچھا شعر …؎
بہتی شوں شاں والے بندے اندروں مکے ہوندے نیں
بہتا ہسن والیاں دے تو اندرجھاتی پایا کر