کرونا وائرس نے انسانیت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیاہے۔ چینی شہر ووہان سے منظر عام پر آنے والی اس وباء نے گوشت کی منڈی میں ایک شاپ ہینڈلر کو متاثر کیا، اور پھر آنے والے ہفتوں میںپوری دنیا میں سفر کیا۔ آج تک199سے زائد ممالک کرونا کی وبا کو کنٹرول کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ وبائی مرض دوسری جنگ عظیم کی طرح، یہ ساری انسانیت کے لئے ایک سنگین ثابت ہوا ہے۔ انسانی زندگی کے تمام شعبے متاثر ہوئے ہیں لیکن سب سے زیادہ صحت اور معاشی انفراسٹرکچر اس کی زد میں آئے ہیں۔ تاحال اس وائرس کے علاج یابچائو کے لیے ویکسین میسر نہیں ہے اور نہ ہی ہم یہ طے کرسکتے ہیں کہ دنیا کی معیشت اس تباہی سے کب تک اور کیسے ٹھیک ہوپائے گی۔ کورونا نے ہمارے انسانی ساختہ نظاموں کی نزاکت، ہمارے علم اور ہماری مضبوطی کو بے نقاب کردیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی طرز زندگی اور وبائی امراض کے حل پر دوبارہ غور کریں۔کورونا وائرس نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا ہے ۔اس کے متاثرین کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی جارہی ہے۔ چین وائرس کے منبع کی حیثیت سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔مختلف ممالک میں سفر کرنے والوں کے ذریعے یہ وائرس تیزی سے دنیا کے دوسرے حصوں تک پھیل گیا۔ پہلے آنے والا یورپ تھا جہاں اٹلی ایک ہولناک صورتحال سے دوچارہے۔ اسی طرح کی وبائی صورتِ حال کا شکار امریکہ ، فرانس، اسپین،اور دیگر ممالک بھی ہوچکے ہیں۔ کوئی براعظم محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان، کینیڈا، آسٹریلیا بھی اس وائرس کی زد میں ہیں ۔یہ وائرس متعدی ہے۔ یہ وائرس ہلکے بخار کی طرح گلے میں خراش سے شروع ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ وائرس پھیپھڑوں پر حملہ کرتا ہے اور مریض نمونیا میں مبتلاہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کورونا کو محدود کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ معاشرتی دوری اور جراثیم کُش ادویات کا سہارا لیاجائے۔ اس مقصد کے لیے لاک ڈاؤن جیسا مشکل فیصلہ انتہائی ناگزیر ہو چکا تھا۔ اس وبائی بیماری کا سب سے افسوسناک پہلو انسانی زندگیوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ طویل مدت معاشی بدحالی ہے جس کا سامنا کرنا ابھی باقی ہے۔ کورونا کے مریض ہفتوں میں ٹھیک ہوجاتے ہیں، لیکن دنیا کی معیشتوں کو واپس آنے میں بہت زیادہ وقت لگے گا ۔
تمام شعبے مالی لحاظ سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ اس وبا کے ساتھ ہی چین اپنی پیداوار، نمو اور خدمات میں 40 فیصد سے زیادہ سکڑ گیا ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام بڑے کاروبار اور کمپنیوں کے چین میں دفاتر اور پیداوار موجود ہے۔ وہ تمام کمپنیاں بند کردی گئی ہیں۔ چین کو ''دنیا کی فیکٹری'' کہا جاتا ہے۔ کورونا نے اس فیکٹری کو بریک لگادی ہے۔ چینی پیداوار، درآمدات اور برآمدات نے عالمی جی ڈی پی کو آگے بڑھایا۔ لاک ڈاؤن اورصنعتی سرگرمیوں میں رکاوٹ کے نتیجے میں، صرف چین میں مجموعی طور پر تقریباً25 بلین ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔ یہ برطانیہ کے پورے سالانہ جی ڈی پی کے برابر ہے۔ پروڈکشن لائنز، پروڈکٹ لانچ، ایکسپورٹ آرڈرز ڈیڈ لائن کا شکار ہوگئے ہیں۔ جب چین کی حکومت بڑی کمپنیوں کو بچانے کے لئے لیکویڈیٹی انجکشن لگانے کی کوشش کر رہی ہے تو متعدد جماعتیں دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ اسی صورتِ حال کا اطلاق یورپ اور امریکہ پر بھی کیا جاسکتا ہے جہاں تقریباً تمام شعبوں میں اسی طرح کی مشکلات دیکھی جاسکتی ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق کورونا کی وجہ سے 900 ملین بچے سکول نہیں جا رہے ۔ کورونا کی وجہ سے تمام ممالک نے اپنی تعلیمی سرگرمیاں معطل کردی ہیں۔ مناسب اندا ز میں محفوظ سرگرمیوں کا حل تا حال زیر غور ہے۔ ہوائی سفر اور دنیا بھر کی سیاحت کی صنعت فروخت اور محصولات میں 80 فیصد سے زیادہ کمی کا شکار ہو چکی ہے۔ دنیا کے 70 فیصد ہوائی جہاز اب مستقبل قریب میں اڑان بھرنے کی امید سے عاری ہیں کیونکہ زیادہ تر ممالک نے دوسرے ممالک سے سفر پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ پہلی بار، ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے یورپ سے بھی تمام پروازوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ اسٹاک مارکیٹیںاس صورت میں نقصان اٹھانے والوں کی اگلی صف میں ہیں۔ گھر میں رہنے کیلئے لاک ڈاؤن اور حکومتی قواعد و ضوابط کی وجہ سے، فیکٹریاں بند ہیں یا انتہائی کم پیداوار پر چل رہی ہیں۔ یہ محدود پیداوار محدود فروخت اور محدود منافع کی حامل ہے جواسٹاک مارکیٹوں کے اعداد و شمار سے جھلکتی ہے۔ تیل کی قیمتیں گھٹ رہی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ تیل اور خام مال سے پیسہ کمانے والے تمام ممالک اور کمپنیاں محصولات میں تیزی سے کمی کا سامنا کر رہی ہیں۔ جس کی عکاسی انکی قومی معیشتوں سے ہوگی۔ اوپیک ممالک سب سے پہلے اس کا نقصان محسوس کریں گے۔