پچھلے برس لاڑکانہ کے نواحی قصبہ رتو ڈیرو میں HIV کے کیسز وباء کی صورت میں رپورٹ ہونے لگے، تو صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت بھی چوکنا ہو گئی اور عالمی ادارہ صحت سے مدد چاہی۔ WHO کے ماہرین پاکستان آئے اور چار ماہ کی تحقیق و تفتیش کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ سارا کیا دھرا استعمال شدہ سرنج کا ہے، جو متعلقہ اہلکار صبح لگاتے ہیں اور شام تک چلاتے ہیں۔ HIV کے 90 فیصد کیسز اسی مجرمانہ حرکت کا شاخسانہ ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ضرورت ہو نہ ہو، ٹیکہ جڑ دیا جاتا ہے۔ شاید یہ مریضوں کی سائیکی ہے یا پھر طبی عملہ کی ہوس ۔ بے شک لالچ کے ماروں کی کوئی انتہا نہیں اور ان کا منہ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔
ایسے میں سرکار کے پاس ایک ہی آپشن رہ جاتا ہے کہ ایک بار استعمال کے بعد خودبخود بیکار ہو جانے والی سرنجوں کو فروغ دے۔ جو ترقی یافتہ ممالک میں عرصے سے مستعمل ہیں۔