پی پی حکومت سے ہاتھ ملا نے کو تیار،کئی چھوٹی جماعتیں بھی ساتھ دینگی

لاہور ( تجزیہ: ندیم بسرا) پی ٹی آئی کے حلقوں میں اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئیں سے زور پکڑنے والی بحث پر عمران خان نے بھی عملدرآمد کا فارمولا پیش کردیا ہے۔ جس کے بعد  دیکھنا یہ ہے کہ  اپوزیشن اور حکومت دونوں میں این آر او نہیں ملے گا کے بیانئے سے پیچھے کون ہٹے گا ؟۔ یہ باتیں سیاسی حلقوں میں زور پکڑنا شروع ہوگئی  ہیں۔ حکومت کے اپنے سیاسی حلقوں میں یہ بات کئی مہینوں سے کی جارہی تھی کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو جب بھی موقع ملے گا وہ سب سے پہلے  پیپلزپارٹی سے مذاکرات کی راہ ہموار کرلے گی۔ پی ڈی ایم  کی دراڑوں نے ثابت کردیا کہ اب پیپلزپارٹی خود سے حکومت کے ساتھ ہاتھ ملا لے گی اور حکومت بھی پیپلزپارٹی کو بخوشی اپوزیشن قبول کر لے گی اور پیپلزپارٹی اپنے ساتھ کئی چھوٹی سیاسی جماعتیں بھی ساتھ لے آئے گی۔ تو کیا سینٹ اور اسمبلیوں میں پیپلز پارٹی ماضی میں جس طرح مسلم لیگ ن کے ساتھ  فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہی ہے اس بار بھی اسی قسم کی تیاری ہے یا اس کا ٹارگٹ کوئی اور ہے۔ تو دوسری جانب مسلم لیگ ن سے نمٹنے کے لئے بھی پی ٹی آئی نے تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ مسلم لیگ ن میں پی ٹی آئی مائنس نواز شریف، مریم نواز  فارمولے کی حامی ہے۔ اس لئے پی ٹی آئی کی لیڈرشپ میں بہت سارے ایسے   شہباز شریف سے ہاتھ ملانے کو بہتر سیاسی تدبیر سمجھتے ہیں۔ تو کیا اس صورت حال میں این آر او نہیں دینگے کا نعرہ ہر جماعت سے لگ رہا تھا تو اس  ڈیل میں این آر او کس جماعت کو ملتا ہے تو اس کا فیصلہ بھی ہوجائے گا۔ پیپلز پارٹی اپنی شرائط پر حکومت کے ساتھ چلنے کو تیار ہے تو کیا حکومت بھی ان کا ساتھ چاہتی ہے یا رمضان المبارک یا بجٹ کی آسان تیاری کے لئے اس ہدف کو چنا گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن