اقوام عالم کی زندگی کا دارومدار تاریخی روایات میں مضمر ہے جس سے وہ اپنے مستقبل کا ایک بہترین لائحہ عمل تیار کرتی ہیں اور زمانہ حال کی منصوبہ بندی کو پیش نظر رکھتی ہیں۔ جس سے ان کی ذہنی نشودنما صحیح خطوط پر پرورش پاتی ہے مگر جو قوم اپنے ماضی سے انحراف کرتی ہے وہ بحیثیت قوم کبھی نہیں پنپ سکتی۔یہی وہ ملی اور قومی جذبہ تھا جس نے ہماری اور ہمارے رفقاء کار کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کیا اور ہم نے اس ملی جذبہ سے سرشار ہوکر پورے یقین، اعتماد اور شعوری کوششوں سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور ایک ایک لمحہ اپنے مقصد کو سامنے رکھا۔ ہماری کوشش ہے کہ اس عظیم ثقافتی ورثے کے حامل قدیم قصبے کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور خطہ ارض نے جن دانشوروں کو جنم دیا انکے کارناموں کو صفحہ قرطاس کی زینت بنایاجائے اس سلسلے میں 1985میں سوہدرہ گزٹ کا اجرا کیاگیا۔گزٹ کی نگارشات سے عوام کو جو ٹھوس اور معلومات سے لبریز مواد مہیا کیاگیا اس کا ملک بھر کے موقراخبارات وجرائد نے عزت وتوقیر اور تحسین کے ساتھ خیرمقدم کیا اور اس کی مقبولیت واہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ ملک کی قومی لائبریریوں اور تحقیقی مراکز نے گزٹ حاصل کرنے کی استدعا کی بفضل تعالیٰ انکو ہدیہ ارسال کردیاگیا۔عزم راسخ رہا۔ جدوجہد کرتے ہوئے راستے میں مشکلات کے پہاڑ آتے رہے۔ ناسازگار حالات سر اٹھاتے رہے مگر ہمارے عزم کی آئین پسندی ،مستقل مزاجی اورمضبوط طبیعت نے ہرموج مخالف کا رخ موڑ دیا۔ گزٹ کی شمع روشن کرکے سوہدرہ کی ثقافتی، علمی وادبی تاریخ کو ہمیشہ کیلئے محفوظ کردیاہے۔جو گزٹ کے انیس شماروں میں اپنے حسن کے ساتھ تابندہ ہے جس پر ادب سرقہ کرنے والوں نے بار بار نقب زنی کی مگر وہ اپنی چرب شدہ تحریروں کے ساتھ عوامی غیض وغضب کا نشان بن گئے ہیں اور دانشور اور صاحب بصیرت لوگوں کی نگاہوں میں مقہور ٹھہرے ہیں۔درحقیقت عصرحاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کیلئے تحقیق وجستجو کو آگے بڑھانا ہر ذی شعور پاکستانی کا فرض ہے اس لیے اس سے ترقی کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ سوچ وبچار کے انداز بدل جاتے ہیں، تحقیقی سائنسی علوم کے بارے میں ہویا عمرانیات کے متعلق بہرحال اس پرخار میدان کو عبور کئے بغیر عروس کامیابی سے ہمکنار ہونا ازحدمشکل ہے۔ہم نے انہی خطوط پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سوہدرہ کی تاریخ محفوظ کرنے کا عزم الجزم کیا ہے، اس لیے کہ فن تاریخ نویسی اور سوانح نگاری ان تغیرات وحالات کو اپنے اندر سمولیتی ہے جو کسی ملک، علاقے یا قوم کو درپیش آتے ہیں جس سے آنیوالی نسلیں کماحقہ فائدہ اٹھاتی ہیں۔یہ ہمیں تاریخ ہی بتلاتی ہے کہ مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں جب اسلامی سرحدیں ایشیا سے افریقہ تک پھیلی ہوئی تھیں، ایک طرف مسلمانوں نے خسرو اور فارس کی سلطنت کے پرخچے اڑا دیئے تو دوسری جانب فراعنہ مصر کی خدائی کا بھرم کھول دیاتھا اورپھر تلوار کے ایسے دھنی جس طرف نکل جائیں کامیابی، کامرانی نے انکے قدم چومے۔ تویہ واقعات ان مشہور نام تصانیف میں مرقوم ہیں جو ہمارے اسلاف ہمارے لیے چھوڑ گئے ورنہ ہم ان کارناموں سے بالکل ناآشنا رہتے۔ مسلمانوں کی درخشندہ اور تابناک تاریخ سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ مسلمانوں میں بڑی قوت پنہاں ہے لیکن اس کو ترتیب وتحریک دینے کی ضرورت ہے اور مستقبل میں ایسا کوئی نمایاں کام وہی اصحاب بصیرت انجام دے سکتے ہیں جو علمی وعملی ہراعتبار سے تیار ہوں اور ہر خطرہ مول لینے اور ہرمشکل سے نبرد آزما ہونے کیلئے جان کی بازی لگادیں اوریہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اہل علم اوردانش گاہوں نے اس سلسلہ میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔سوہدرہ کی عظمتوں کے جو خزینے وفن ہیں انکی تلاش وجستجو کس قدر صبرآزما اور مشکل کام ہے لیکن اس کو اگر مشکل سمجھ کرناممکن بنالیا جائے توپھر تاریخ کس طرح مرتب ہوگی۔آنیوالی نسلوں کو بیداری اور عمل کا پیغام کس طرح سنایاجائیگا اپنے بزرگوں سے روحانی اور قلبی تعلق کس طرح استوار ہوگا۔ تاریخ کوتحفظ کس طرح ملے گا۔ جب زمانے کے نئے حالات خیالات میں تغیروتبدل، ذہنوں میں پرانی روایات کیخلاف ایک بحران ہو۔نئی نسل کو ہرجگہ غلط نظریات اور الفاظ کے خوشنما مناظر دکھا کر اصل حقیقت سے بیگانہ کیاجارہا ہو تو ایسی صورتحال میں پرانی تاریخ کی شمع روشن کرنی کیسی عجیب معلوم ہوتی ہے اورلائق صد ہزار تشکر وامتنان ہیں وہ لوگ جو اپنے بزرگوں کی اور قصبے کی تاریخ کے احیاء میں لگے ہوئے ہیں۔اسی طرح سے حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی بھی اسی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں ان کی زندگی کا ایک دن بھی ایام طفولیت کے بعد ایسا نہیں گزرا جس میں انہوں قومی بہبود کے کاموں میں والہانہ شرکت نہ کی ہو، مولانا ظفراللہ خان کی شفقت اور علی گڑھ کی تربیت نے انہی دوباتوں کی طرف راغب کیا۔ختم نبوت کی تحریک کا فروغ کفرستان ہند میں دین کی تبلیغ اور جدوجہد پاکستان میں عملی طور پر شرکت اسکے علاوہ آپ طب میں دوا اور دعا کو ملا کر طب نبوی کے روحانی زاویے کو فروغ دیتے، آج کل حکیم راحت نسیم سوہدروی مجلس یادگارنسیم کے تحت ان کے افکارکوزندہ رکھے ہوئے ہیں۔
ہمیں اپنی تاریخ سے جڑے رہنے پر بہت سے ایسے سبق پڑھنے کو ملتے ہیںجس سے ہم آج کے وقت میں نقصان اٹھانے سے بچ سکتے ہیں مورخین کا کتابیں لکھنے کا مقصد یہی ہوتاہے کہ آنیوالی نسلیں پچھلی زمانے میں ہونے والی کوتاہیوںسے سبق حاصل کرکے اپنے حالات کو سنوار سکیں۔