ملکی سیاست میں بے صبری اور شتابی عروج پر ہے۔ اپوزیشن سے حکومت اور حکومت سے اپوزیشن برداشت نہیں ہورہی۔ ہماری سیاست کا عجب حال ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں سابق صدر اور وزرائے اعظم شان و شوکت سے زندگی گزارتے اور سوانح حیات لکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے سابق حکمرانوں کے ہاتھ تذلیل کے سوا کچھ نہیں آتا۔ نوازشریف تین بار وزیراعظم بنے‘ جلاوطنی دیکھی‘ پابند سلاسل رہے‘ مقدمات کی پیشیاں بھگتیں‘ اسیری کا ذائقہ چکھا‘ کبھی جدہ میں پناہ ملی تو کبھی لندن کی راہ لی۔ پاسپورٹ بھی گنوا بیٹھے‘ مقدمات کے بادلوں نے انکے آسمان آزادی کو چھپا رکھا ہے۔ بڑھاپا اور ان گنت بیماریاں ہیں۔ اڈیالہ اور کوٹ لکھپت جیل میں ایک رات گزارنے کی ہمت نہیں۔ پارٹی کیلئے ہدایت کاری کا عمل جاری ہے۔ وزیراعظم عمران خان انہیں درجنوں بار چور ڈاکو کا سول ایوارڈ دے چکے ہیں۔ عام آدمی سوچتا ہے کیا آئین پاکستان میں کسی چور ڈاکو کیلئے بھی صدر مملکت اور وزیراعظم بننے کی گنجائش موجود ہے۔ زرداری صدر مملکت رہے‘ ان پر الزامات کی ایک کتاب ہے۔ خود ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں کسی سابق صدر اور وزیراعظم کو چور ڈاکو کے خطاب سے نہیں نوازا گیا۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ‘ کلنٹن‘ اوباما کسی ایک کی ملامت نہیں کی گئی۔ صدر اور وزیراعظم سے نیچے درجنوں سابق وزراء پر بھی الزامات کی موسلادھار بارش ہے۔
دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہوگا جس کی سیاست اس انداز سے چل رہی ہو۔ مشرف جیسا آہنی صدر سابق ہوا تو پیشی بھگتنے کیلئے جاتے ہوئے راستے سے غائب ہو کر آرمی ہسپتال میں لیٹ گیا۔ کراچی گیا تو وہاں بھی اسے ہسپتال کا بیڈ پسند آیا۔ اسلام آباد کے ذاتی محل میں رہنا نصیب نہیں ہوا۔ دوستوں کو اسکی وردی کی حیا آئی اور اسے جیل کی سلاخوں اور پیشیوں سے بچا لیا۔ اسکے خلاف مقدمات کی درجنوں فائلیں سپرد خاک ہوچکی ہونگی۔ چھ بار بلاشرکت غیرے وزیراعلیٰ پنجاب رہنے والا شہبازشریف مقدمات پیشیوں اور قید کے جنجال میں پھنسا ہے۔ وزیراعلیٰ تھا تو رات دن دوڑتا بھاگتا اور ماتحتوں کی بھی دوڑ لگواتا تھا۔ مریم اور بلاول نے خود تو اقتدار کے مزے نہیں چکھے لیکن ایوان ہائے اقتدار کی ٹھنڈی اور پرکیف ہوائوں کے مزے اٹھائے۔ وہ اس بات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں کہ وہ سابق حکمرانوں کی اولاد ہیں جو زیرعتاب ہیں۔ لانگ مارچ وہ میت ثابت ہوئی جس کی فاتحہ بھی نہ پڑھی جا سکی۔ موجودہ اپوزیشن مولانا اور مریم اتحاد پر مشتمل ہے۔ زرداری اور بلاول اب فرینڈلی اپوزیشن بن چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی کا یوٹرن دنیا نے دیکھ لیا۔ سنجرانی کیخلاف عدالت نے ٹکا جواب دیا کہ اکثریت ہے تو عدم اعتماد سینٹ میں لائیں۔ عمران خان تو عملاً اعتماد کا ووٹ لیکر اپوزیشن کو ٹھنڈا کر چکے ہیں۔
پیپلزپارٹی کسی صورت میں سندھ حکومت نہیں گنوائے گی۔ ایک صوبے میں تو پروٹوکول مل رہا ہے۔ آہستہ آہستہ ن لیگ بھی اگلے انتخابات تک ٹھنڈی ہو کر بیٹھ جائیگی۔ پاکستان دنیا کی واحد جمہوریت ہے جہاں اسٹیبلشمنٹ کا تذکرہ ہوتا ہے۔ حقیقت ہے یا بدگمانی‘ یہ تو اللہ جانتا ہے۔ بہرحال چیک اینڈ بیلنس کیلئے گھر میں کسی بزرگ کا ہونا ضروری ہے۔ ’’سلیکٹڈ‘‘ کا طعنہ دینے ولے بھی کبھی سلیکٹڈ تھے۔ بھٹو نے ایوبی آمریت کی گود میں آنکھ کھولی اور نوازشریف جنرل ضیاء کے لے پالک تھے۔ سب کو اپنی اصل یاد رکھنی چاہیے۔ شیخ رشید ٹھیک کہتے ہیں کہ یہ سب جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر 4 کی پیداوار ہیں تاہم وہ اپنے بارے میں نہیں بتاتے کہ وہ کس گیٹ سے داخل ہوئے تھے۔ آج وہ وزیر داخلہ نہیں آدھے وزیراعظم ہیں۔ وزیر داخلہ کا عہدہ نصف وزیراعظم کے برابر ہے۔ پیپلزپارٹی یوٹرن کا جواز یہ کہہ کر پیش کرتی ہے کہ ہمیں پارلیمانی محاذ خالی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مریم نواز کی نیب کے ذریعے گرفتاری فی الحال ٹل گئی ہے۔ وہ کھل کر مزاحتمی کردار ادا کررہی ہیں۔ ن لیگ کا ووٹ بنک مہنگائی کا کرنٹ اکائونٹ بڑھنے سے بھرتا جارہا ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے چیخیں نکلوا دی ہیں۔ سیاست میں مصالحت اور مخالفت چلتی رہتی ہے۔ کبھی ہم نہیں کبھی تم نہیں والا معاملہ رہتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں وزیراعلیٰ کو کابینہ میں توسیع کیلئے ٹف ٹائم کا سامنا ہے۔ ادھر بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کے اتحاد کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا تازہ فوکس جنوبی پنجاب ہے۔ ڈیرہ غازی خان‘ ملتان اور بہاولپور میں بے روزگاری اورغربت بہت زیادہ ہے۔ غربت کو صرف زراعت دور نہیں کر سکتی‘ تھل اور چولستان میں وسیع رقبے پر صنعتی زور قائم کیا جا سکتا ہے۔ مظفرگڑھ اور بہاولپور انڈسٹریل زون پر تیزی سے کام ہوگا۔ سیاسی لڑائیاں ختم کرکے ملکی مفاد کی خاطر اپوزیشن اور حکومت دونوں کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔ پی ڈی ایم میں شگاف سے پی ڈی ایم کو ہی نقصان ہوگا۔ پیپلزپارٹی قابل بھروسہ دوست ثابت نہ ہوئی جمہوری اور غیرجمہوری رویے مفادات سے جنم لیتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمان میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کا عمل شروع کیا جائے۔ قواعد و ضوابط میں تبدیلی لائی جائے۔ رولز آف گیمز کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ انتخابی اصلاحات پر بات چیت کی جائے۔ پنجاب میں تحریک انصاف بیوروکریسی کو اپنے ساتھ ایک پیج پر نہیں پاتی‘ تبادلوں کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ سیکرٹریوں کی تعیناتی سالوں کیلئے نہیں مہینوں اور ہفتوں کیلئے ہوتی ہے۔
زرداری کو یوں ہی نہیں کہتے ’’سب پر بھاری‘‘۔ گیلانی کو سینٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوا کر رہے۔ مولانا اور مریم دیکھتے رہ گئے۔ چھ ماہ کی جدوجہد کے بعد پی ڈی ایم کی واقعی ٹائیں ٹائیں فش ہو گئی۔ اپوزیشن اب حکومت فرینڈلی نہیں سرکاری اپوزیشن کہلائے گی۔ پی پی نے پی ڈی ایم سے واقعی خلع لے لیا۔ادھر اے این پی نے پی ڈیم ایم کو لات مار دی۔ جماعت اسلامی اور فاٹا ارکان نے گیلانی کو ووٹ دیا۔ پیپلزپارٹی نے ثابت کردیا سیاست عقل کا کھیل ہے۔ عمران خان کے بعد پی پی کو بھی سلیکٹڈ کا خطاب مل گیا۔ چیئرمین سینٹ اور اپوزیشن لیڈر دونوں کو سلیکٹڈ کہا گیا ہے۔ کیا عجب سیاست ہے کہ الیکٹڈ بھی سلیکٹڈ ہیں۔ ن لیگ پی پی کے ہاتھوں ذبح ہو گئی۔ سپریم کورٹ نے پنجاب کے تمام بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو پانچ سال کیلئے منتخب کیا تھا۔ ایک نوٹیفکیشن کا سہارا لے کر انہیں گھر بھجوانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ پنجاب میں بلدیاتی حکومتوں کی مدت دسمبر 2021ء تک تھی لیکن 2018ء کے عام انتخابات کے بعد نومنتخب صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی ادارے تحلیل کرکے بلدیاتی نظام میں اصلاحا ت کر ایک سال میں الیکشن کرانے کا وقت دیا لیکن ایک سال گزرنے کے بعد بھی بلدیاتی انتخابات نہ کرائے جاسکے۔ مقامی حکومتوں کا بنیادی مقصد تعلیم‘ صحت ‘روزگار ‘سڑکیں بنانا‘ پانی کی فراہمی اور صفائی کے انتظامات کرنا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں مقامی حکومتیں عوام کے مسائل انکی دہلیز پر حل کررہی ہیں جبکہ ہمارے ہاں ہر طرف گندگی‘ ٹوٹی سڑکوں گلیوں اور بہتے گٹروں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔