عوامی نیشنل پارٹی‘ پی ڈی ایم سے الگ کیا ہوئی کہ مجھے بے اختیار عالم لوہار مرحوم یاد آگئے
؎ لائی بے قدراں نال یاری
تے ٹٹ گئی تڑک کرکے بلے بلے
پی ڈی ایم کے غیر فطری اتحاد کے خاتمہ کا آغاز ہوگیا ہے اور آپ اے این پی کی جانب سے پی ڈی ایم کی علیحدگی کو بارش کا پہلا قطرہ سمجھ لیں۔ معاملہ صرف یہ نہیں ہے کہ ایک چھوٹی سیاسی جماعت اپوزیشن کے سیاسی اتحاد سے الگ ہوئی ہے‘ اصل بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن)کا شاہانہ مزاج‘ اتحاد میںشامل تمام دیگر سیاسی جماعتوں پر آشکار ہوا ہے۔ ڈکٹیٹر شپ جو کہ ایک خاص سیاسی جماعت کے مزاج کا خاصہ ہے اب اس میں اتنی بھی گنجائش نہیں رہی کہ وہ اتحاد میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ لیکر چل سکے۔ پرویز مشرف دور میں بننے والے سیاسی اتحاد کا معاملہ سب کے سامنے ہے کہ جس میں باقی جماعتیں منہ دیکھتی رہ گئیں اور مسلم لیگ (ن) کا حکمران خاندان اپنے لیے ملک سے راہ فرار کا ایک محفوظ راستہ لے کر جدہ چلتا بنا اور باقی تمام اتحاد ان کا راستہ دیکھتا رہا اور ان کو میڈیا کے ذریعے پتہ چلا کہ ’’شاہی خاندان‘‘ توبیرون ملک جا چکا ہے۔
بہت سارے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اے این پی کی طرح کسی حتمی فیصلے کے وقت مولانا فضل الرحمن کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑی نظر آئے گی بشرطیکہ پس پردہ جاری مذاکرات میں انہیں اپنے لیے بھی کچھ حصہ نظر آئے۔ اس حوالے سے موجودہ حکمران جماعت کے سربراہ وزیراعظم عمران خان کو اپنا دل تھوڑا سا بڑا کرنا ہوگا اور مولانا فضل الرحمن کو بھی کسی نہ کسی طرح سے ’’اکاموڈیٹ‘‘ بھی کرنا ہوگا اور سرعام ان کی تضحیک بھی ترک کرنا ہوگی لیکن یہ شاید پاکستان تحریک انصاف کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ وہ اپنے ایک بنیادی موقف سے بڑا ’’یوٹرن‘‘ لے سکے کہ وہ یوٹرن کے حوالے سے پہلے ہی خاصے بدنام ہو چکے ہیں۔ اگر موجودہ سیاسی حالات کا تجزیہ کیا جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی سیاسی وکٹ پر کھیلنے سے انکار کرکے ’’میچ‘‘ اوپن کر دیا ہے اور اب صورتحال ایک طرح سے سب کے لیے برابر موقع مہیا کررہی ہے۔ گزشتہ روز محترمہ شہلا رضا نے ایک ٹویٹ کیا جس کو بعد میں واپس لے لیا گیا لیکن اس ٹویٹ اور اس کی واپسی سے پہلے ہی نجی محفلوں میں خاکسار نے یہ کہنے کی جسارت کی تھی کہ اب گیم اوپن ہوگئی ہے اور سیاسی معاملات کے تمام حصہ داران جو اسٹیبلشمنٹ کے حامی ہیں یا مخالف انہوں نے گیند ایک مرتبہ پھراسٹیبلشمنٹ کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔پھر عرض کرتا ہوں کہ اس وقت یہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس حکومت کو کتنی دیر چلنے دے یا اس میں کسی اور کو بطور اتحادی ( غیر محسوس) شامل کر دے یا اگلے انتخابات میںاس یا کسی بھی دیگر جماعت کو موقع دے۔
پاکستان میں حکومت سازی کے لیے سیاسی میدان جنگ ہمیشہ سے پنجاب ہی رہا ہے۔ سندھ پر بلاشرکت غیرے پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت رہی ہے دوسری بڑی جماعت ایم کیو ایم جو اقتدار میں کسی نہ طورشریک رہتی چلی آئی ہے اب اس حالت میں نہیں رہی کہ وہ منظر نامے پر کسی بڑی تبدیلی کا باعث بن سکے‘ اس کا سیاسی حصہ اب تقسیم ہو چکا ہے ۔
خیبرپختونخواہ میں عوام کی یہ روایت رہی تھی کہ وہ کسی سیاسی جماعت کو دوبارہ حکومت سازی کا موقع نہیں دیتے مگر اس مرتبہ انہوں نے پی ٹی آئی کو پہلی مرتبہ سے زیادہ مینڈیٹ دیا اب اگلی مرتبہ وہ کس جماعت کا رخ کرتے ہیں؟ یہ اس وقت کے زمینی حقائق طے کریں گے تاہم ہزارہ فی الحال مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہی جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ پیپلز پارٹی بھی اس صوبے میں اچھا خاص اثرونفوذ رکھتی ہے اور موجودہ حالات میں بہتر نتائج اگلے انتخابات میں دکھا سکتی ہے۔ بلوچستان میں ہمیشہ کی طرح ملا جلا رحجان سامنے آتا ہے اور علاقائی جماعتیں اہم کردار میں سامنے آتی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ اکا دکا جبکہ مذہبی جماعتیں بھی یہاں سیاسی طاقت رکھتی ہیں۔پنجاب میں انتخابی لڑائی مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان ہونے کا امکان ہے لیکن سب سے اہم کردار جنوبی پنجاب کی نشستیں ادا کریں گی۔ گیم اس لیے ’’اوپن‘‘ ہے کہ جنوبی پنجاب جیتنے والا ہی اگلی انتخابی بازی میں معمولی سبقت لے پائے گا۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ اگلی حکومت ممکنہ طورپر زیادہ جماعتوں کے اتحاد پر مبنی ہوگی اور یہ سوال کہ کیا اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی کے درمیان کوئی ڈیل چل رہی ہے یا مسلم لیگ (ن) بھی کچھ حصہ حاصل کرپائی ہے تو مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے تو امکانات کم نظر آتے ہیں لیکن جہانگیر ترین اور آصف علی زرداری کی ملاقات سے جنوبی پنجاب کی اہمیت ضرور واضح ہوتی ہے۔ جہانگیر ترین فوری طورپر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کرسکتے بلکہ جہانگیر ترین کی کسی بھی جماعت میں شمولیت کی ٹائمنگ یہ طے کرے گی کہ اگلے انتخابات کب ہوں گے!