چار گھنٹے کا سفر اور لاتعداد مشاہدے

قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالی بارہا فرماتا ہے کہ میں نے نظام قدرت میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں رکھی ہوئی ہیں۔ پھر اللہ جل جلالہْ یہ بھی تو فرماتا ہے کہ میری زمین میں گھومو پھرو، تمہیں ہر پل میری نئی شان ہی نظر آ ئے گی اور سورہ رحمان کی 29 ویں آیت اسکی تائید اور تصدیق کرتی ہے۔ لاہور سے ملتان براستہ موٹر وے چار گھنٹے کے سفر کے دوران میں نے اس عظیم تخلیق کار کی تخلیق کردہ ہزاروں نشانیاں دیکھیں۔ اس مختصر سے سفر میں میں نے زندگی اور موت کے عمل کا گہرائی سے مشاہدہ کیا۔ میرے دائیں بائیں فصلیں ہی فصلیں تھیں۔ پانچ ماہ قبل نومبر میں ملک بھر میں جو گندم کی فصل بوئی گئی، وہ کس طرح سے کمزور سے پودوں کی شکل میں زمیں سے ابھاری اور نکالی گئی اور پھر چند ہی دنوں میں ان چھوٹے چھوٹے پودوں نے زمین پر تا حد نظر سبز قالین بچھا دیا اور ہر طرف دور دور تک سبزہ ہی سبزہ نظر آنے لگا۔ اب مارچ کے خاتمے کے بعد اپریل کا آغاز ہو چکا ہے اور دو ماہ قبل کی سرسبز گندم کی فصل کی موت کا وقت قریب ہو چکا ہے۔ موت کی پیلاہٹ نے اس کا رنگ بدلنا شروع کر دیا ہے اور اب حکم الہی سے یہ کٹنے کو نہیں بلکہ مرنے کو تیار ہے۔اس کی موت اربوں زندگیوں کی روانی کا باعث بنے گی۔ اس کا بھوسہ جانور کھائیں گے اور مقرر شدہ زندگی کو گزاریں گے جبکہ اسکے دانے انسانوں اور چرند پرند کی خوراک کا باعث بنیں گے۔ 
   میرے اطراف میں گندم کا وقت عصر گزر چکا ہے مگر یہ کیا کہ گندم کے کھیتوں کی تقسیم کیلئے بنائی گئی مٹی کی پگڈنڈیوں پر گھاس سرسبز اور شاداب ہے جسے ان دنوں پانی بھی نہیں مل رہا کہ پکنے کے ایام میں گندم کو پانی نہیں لگایا جاتا۔ گھاس سے سرسبز پگڈنڈی کے دونوں اطراف گندم کی فصل تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے کہ اسکی زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں البتہ گھاس کو ابھی دوام ہے کہ نظم قدرت میں ابھی اسے مہلت ہے اور یہ مہلت بھی تو اللہ تعالیٰ ہی کے کنٹرول میں ہے کہ وقت بھی تو اس شہنشاہ وقت کا ہی مقرر کردہ ہے۔ مجھے بعض ایسے کھیت بھی نظر آئے کہ ان کی فصل کا ایک بھی پودا زمین پر گرا ہوا نہیں اور انہی زمین کے ٹکڑوں جسے پنجابی میں پیلی، کلہ یا بیگھہ کہتے ہیں، کے عین درمیان کوئی فصل ایسی بھی ہے کہ جابجا زمین پر گری ہوئی ہے گویا وہ نہ تو اپنے کاشت کرنے والے کو فائدہ دے گی اور نہ ہی کسی اور کو، بلکہ یہ تو زمین ہی کا اسی طرح سے رزق بنے گی جس طرح کنویں کی مٹی کنویں پر ہی لگ جاتی ہے اور جس طرح ہر کسی نے جلد یا بدیر زمین کا رزق بننا ہی ہے۔ لاہور سے جڑانوالہ‘ سمندری اور ٹوبہ ٹیک سنگھ تک مالک کائنات نے زمین تو ایک جیسی بنائی مگر جو زمین پر اگنے والی ایک ہی فصل یعنی گندم کی مالک کائنات نے کمال درجہ بندی کر رکھی ہے کوئی اعلیٰ ترین اور کوئی گری ہوئی۔ کوئی اتنی گھنی کہ درمیان سے گزرنا مشکل اور کوئی اتنی کمزور کہ اس کا اپنے زور پر کھڑے رہنا ہی ناممکن۔ ایکڑوں پر پھیلی اس دم توڑتی گندم کی فصلوں کے درمیاں درجنوں سرسبز درخت بھی خدائے رب العزت کا پیغام دے رہے ہیں کہ ابھی ان کیلئے مہلت ہے اور ابھی یہ اللہ کے اگلے احکامات تک یونہی سرسبز رہیں گے۔ لاہور سے روانہ ہوں تو اطراف میں امرود اور الیچی کے باغات، پھر کنوں مالٹا اور پھر آم کے پودے۔ کہیں دم توڑتی گندم کی فصل کے درمیان سبز چارے کے ہرے بھرے کھیت بھی موجود تھے جو سرسبز ہی رہیں گے اور اپنے ہی رنگ میں کٹ کر جانوروں کی خوراک بنیں گے۔ کہیں نئی فصل کی بوائی کے لئے زمین تیار کی جا رہی ہے اور جلد ہی زمین کے اس ٹکڑے کی کوکھ سے کوئی نئی فصل جنم لے گی جو کئی زندگیوں کی خوراک بنے گی۔ اپنی مدت پوری کر کے کٹنے اور موت کے منہ میں جانے کو تیار ہوتی گندم کے اردگرد پھلوں کے ایسے باغات بھی ہیں جس کی عمریں 50 سال سے بھی زائد ہیں اور وہ پھل دے رہے ہیں کہ ابھی ان کیلئے یہی حکم الٰہی ہے۔
   قرآن مجید کا دل کہلانے والی سورۃ یٰسین کی 40 ویں آیت کی اعلیٰ ترین خوبصورتی یہ ہے کہ اس آیت سے 14 سو سال پہلے ہی انسان کو بتا دیا کہ ’’نہ تو سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی دن رات پر سبقت لے جا سکتاہے۔ یہ سب اپنے اپنے فلک میں تیر رہے ہیں‘‘ قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ نے ثابت کر دیا کہ کائنات میں ہر چیز حرکت میں ہے ورنہ اس سے قبل انسان کا یہی عقیدہ تھا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ سائنس نے جس بات کو ثابت کرنے میں 14 سو سال لگائے دیے، قرآن مجید میں تو وہ پہلے ہی سے موجود ہے۔ اسی لئے تو سورۃ کہف کی 109 ویں اور 110 ویں آیات میںاللہ تبارک و تعالیٰ واشگاف الفاظ میں کہتا ہے ’’ اگر سمندر میری رب کی باتیں لکھنے کے لئے سیاہی بن جائے وہ خود ختم ہو جائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں بلکہ اتنی ہی روشناہی (سیاہی) اور بھی لے آئیں تو وہ بھی ختم ہو جائے مگر تیرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں‘‘۔ پھر اللہ رب العزت نبی پاک کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہہ دو کہ میں تو ایک انسان ہوں تمہارے جیسا۔ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارااللہ بس ایک ہی ہے، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے‘‘ 
اب سوال یہ ہے کہ اس دنیا میں آنے سے قبل بھی یہ اشرف المخلوقات کہلانے والا انسان اسی رب تعالیٰ کی تابعداری میں رہتا ہے اور اس دنیا سے جانے کے بعد بھی وہ اپنی مرضی سے انگلی نہیں ہلا سکتا۔ پھر دنیا سے جانے کے بعد کی جو زندگی ہے وہ تو کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔ خاتمہ تو بس اس زمین کی فانی زندگی کو ہے۔ نبی پاک کا طیب فرمان ہے کہ اس دنیاوی زندگی کی مثال اس طرح سے جیسے کوئی مسافر سفر کرتے کرتے تھوڑی دیر کیلئے کسی درخت کی چھاؤں تلے سستا لے مگر انسان کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ جزو ہی کو نہ صرف کل سمجھتا ہے بلکہ کل سے بھی بڑھ کر اسی جز کو سب کچھ سمجھ لیتا ہے۔ پھر اس دنیا کی حیثیت تو بس اس مثال سے واضح کی گئی کہ ایسے جیسے کھجور کی گٹھلی کے اوپر والی باریک سی جھلی۔۔ اسی لئے تو شیخ سعدی شیرازی کہتے ہیں۔ ’’چشم تماشا بیار‘‘ توں دیکھنے والی آنکھ تو لا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن