عدالت کی جانب سے سنایا گیا مختصر فیصلہ چار صفحات پر مشتمل ، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا
آپ اپنے عمل پر پشیماں تک نہیں اور دلائل دے رہے ہیں، کسی کا تو احتساب ہونا ہے،جسٹس اطہر من اللہ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس2022 کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔اس سے قبل جمعہ کے روز ہی عدالت نے تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ عدالت کی جانب سے سنایا گیا مختصر فیصلہ چار صفحات پر مشتمل ہے۔ جبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے محفوظ فیصلہ سنایا، پی بی اے و دیگر صحافتی تنظیموں نے چیلنج پیکا ترمیمی آرڈیننس کو چیلنج کر رکھا تھا جبکہ پیکا کے سیکشن 20 کے تحت ایف آئی اے کے بے جا اختیارات کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔ اس سے قبل سماعت کے دوران وکیل درخواست گزارعادل عزیز قاضی، ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ اور ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی رپورٹ بھی عدالت میں جمع کروائی گئی۔پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کی۔ ایف آئی اے کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے ایس او پیز رکھے اور ان کو ہی پامال بھی کیا گیا، آپ نے ایس او پیز کی پامالی کی اور وہ سیکشن لگائے جو لگتے ہی نہیں تھے، وہ سیکشن صرف اس لیے لگائے گئے تاکہ عدالت سے بچا جا سکے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا یہ بتا دیں کہ کیسے اس سب سے بچا جا سکتا ہے؟ جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے کہا کہ قانون بنا ہوا ہے، اس پر عملدرآمد کرنے کے لیے پریشر آتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ آپ نے کسی عام آدمی کیلئے ایکشن لیا؟ لاہور میں ایف آئی آر درج ہوئی اور اسلام آباد میں چھاپا مارا گیا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے عدالت کو بتایا کہ ہم ایف آئی آر سے قبل بھی گرفتاری ڈال دیتے ہیں، پھر اس سے برآمدگی پر ایف آئی آر درج کرتے ہیں، جس پر عدالت نے پوچھا کہ آپ کیسے گرفتار کر سکتے ہیں؟ کس قانون کے مطابق گرفتاری ڈال سکتے ہیں؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دئیے کہ آپ اپنے عمل پر پشیماں تک نہیں اور دلائل دے رہے ہیں، کسی کا تو احتساب ہونا ہے، کون ذمہ دار ہے؟ آج آرڈر کرنا ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ صحافیوں کی نگرانی کی جا رہی ہے، یہ ایف آئی اے کا کام ہے کیا؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ بلال غوری کے علاوہ باقی سب کی انکوائری مکمل ہو چکی ہے، جس پر عدالت نے پوچھا کہ بلال غوری نے وی لاگ کیا تھا اور کتاب کا حوالہ دیا تھا، کارروائی کیسے بنتی ہے؟ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ملک میں کتنی دفعہ مارشل لا لگا یہ تاریخ ہے، لوگ باتیں کریں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعدپیکا ترمیمی آرڈیننس پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ عدالت نے نماز جمعہ کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے پیکا آرڈیننس کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا۔