حق وباطل کا پہلا معرکہ

 حق وباطل کا پہلا معرکہ
 چوہدری محمد جمشید خان
 پرنسپل 
 قائداعظم ڈگری کالج دھمیال روڈ راولپنڈی کینٹ
مقامِ بدرمدینہ منورہ سے تقریبًا 80میل کے فاصلہ پر ایک گاوں کانام ہے۔زمانہ جہالیت میں اس مقام پر سالانہ میلہ لگتا تھا اور اسی مقام پر ایک کنواں بھی تھا جس کے مالک کا نام بدر تھا،اسی کے نام پر اس جگہ کا نام بدر رکھ دیا گیا ۔حق و باطل کا یہ پہلا عظیم معرکہ کفارِ قریش اور مسلمانوں کے درمیان2 ہجری 17رمضان المبارک جمعہ کے بابرکت د ن کو اسی مقام ِ بدر میں پیش آیا۔ اس معرکہ میں کفارِمکہ اور مسلمانوں کے درمیان شدید خون ریزی کی جنگ ہوئی ۔اللہ تعالی نے اس معرکہ میں مسلمانوں کو اس عظیم فتح و نصرت سے سرفراز فرمایا جس کے نتیجہ میں اسلام کی عظمت و ح±رمت کا پرچم انتہائی سربلند ہوگیااور کفار مکہ کی نام نہاد عظمت و شوکت بلکل خاک میں مل کر رہ گئی جب غزوہ بدر رونما ہوا تو اللہ تعالی اپنے کلام ِربی میں اسے یوم الفرقان قرار دیا۔اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی جن کے پاس 2گھوڑے،70اونٹ،تھے جبکہ لشکرِ کفار 1000 افراد پر مشتمل تھا جن کے پاس700 گھوڑے اور کثیر آلاتِ حرب تھے۔
 جنگ سے قبل رات حضور نبی کریم نے اپنے چند جانثاروں کے ساتھ بدر کے میدان کو ملاحظہ فرمایا اور زمین پر جگہ جگہ ہاتھ رکھ کر فرماتے یہ فلاں کافر کے قتل ہونے کی جگہ ہے اور کل یہاں فلاں کافر کی لاش پڑی ہوئی ملے گی۔ چنانچہ راوی فرماتے ہیں ویسا ہی ہوا جیسا آپ فرمایا تھا اور ان میں سے کسی نے اس لکیر سے بال برابر بھی تجاوز نہ کیا،کیا شان ہے ہمارے پیارے آقا کی کہ اللہ تعالی کی عطا سے ایک دن پہلے ہی یہ بتا دیا کہ کون کب اور کس جگہ مر ے گا۔اس رات اللہ تعالی نے مسلمانوں پر اونگھ طاری کر دی جس سے ان کی تھکاوٹ دور ہو گئی اور اگلی صبح بارش بھی نازل فرمائی جس سے مسلمانوں کی طرف ریت جم گئی اور پانی کی کمی دورہو گئی ۔رات اپنے رب کے حضور عجزو نیاز میں گزاری اور صبح مسلمانوں کو نمازِ فجر کے لیے بیدار فرمایا، نماز کے بعد ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس سے مسلمانوں میں جذبہ شہادت خوب سرشار ہوا۔
 حضور رحمتِ دوعالم نے پہلے مسلمانوں کے لشکر کی جانب نظر فرمائی پھر کفار کی طرف دیکھا اور دعا فرمائی کہ یا رب ! اپنا وعدہ سچ فرما جو تو نے مجھ سے کیا ہے،اگر مسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک ہو گیا تو روئے زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی ۔اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد کے لیے پہلے ایک ہزار فرشتے نازل فرمائے ،اس کے بعد یہ تعداد بڑھ کر تین ہزار اور پھر پانچ ہزار ہو گئی۔پیارے آقا نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھر کر کفار کی طرف پھینکی جو کفارکی آنکھوں میں پڑی ۔ پیغمبرِ اعظم کے پروانوں اور دیوانوں نے لشکرِکفار کی کثرت اور ہتھیاروں کی بہتات کے تکبر کو خون و خاک میں غلطاں کر کے کفار واصلِ جہنم کیے اور اتنی ہی تعداد میں گرفتار کر لیے جبکہ مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ بقول شاعرِ مشرق علامہ اقبال
 وہ چنگاری خس وخاشاک سے کس طرح دب جائے 
 جسے حق نے کیا ہونیستاں کے واسطے پیدا
 

ای پیپر دی نیشن