مفکر اور فلاسفر میکاولی نے اپنی معروف زمانہ کتاب ( پرنس ) میں تحریر کیا تھا کہ حکمران کو سخی نہیں ہونا چاہیے وہ رعایا پر رحم کرنے کی بجائے ظلم و جبر سے حکومت چلائے اخلاقیات کی بالکل پرواہ نہ کرے جھوٹ اور منافقت سے کام چلائے اور اپنے مفاد کے لیے وعدے توڑنے سے بالکل گریز نہ کرے- بد قسمتی سے پاکستان میں میکاولی کا فلسفہ اپنے عروج پر ہے-پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاستدان بحران تو پیدا کر لیتے ہیں مگر اس بحران کو حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں اور اپنے سیاسی پارلیمانی تنازعات عدالتوں میں لے کر چلے جاتے ہیں - پاک فوج کے سابق سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے عمران خان کی حکومت ختم کرنے کا فیصلہ کر کے ملک میں سنگین اور حساس نوعیت کا بحران پیدا کر دیا- اتحادی حکومتی جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف ٹھوس وجوہات کے بغیر عدم اعتماد کی تحریک پیش کر کے سیاسی پارلیمانی نظام کو مفلوج کر دیا ۔ان کا یہ فیصلہ میکاولی کے فلسفہ کے مطابق منافقت پر مبنی تھا- قومی مفاد کا تقاضا یہ تھا کہ عمران خان کی حکومت کو اسی طرح آئینی مدت پوری کرنے دی جاتی جس طرح آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی تھی- عمران خان عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے قومی اسمبلی توڑ کر رجیم چینج کی سازش کو ناکام بنا سکتے تھے اور پاکستان کو سنگین بحران سے بچایا جا سکتا تھا مگر وہ سیاسی سوجھ بوجھ اور بصیرت و دانش کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہے - ماضی میں جب بھی حکومتیں توڑی گئیں تو رخصت ہونے والے حکمرانوں نے اس فیصلے کی کوئی مزاحمت نہ کی عمران خان نے قومی مفاد کے بر عکس شدید مزاحمت شروع کر دی- اگر تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی سے استعفے نہ دیتے تو چھ ماہ کے بعد ہی اتحادی حکومت ختم ہو سکتی تھی جو تین چار ووٹوں کی برتری سے قائم ہوئی تھی-عمران خان نے مہم جوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی سیاسی جمہوری منطق کے بغیر پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کو توڑ کر قرضوں میں ڈوبے پاکستان کو تاریخ کے انوکھے بحران میں مبتلا کر دیا- عمران خان کا یہ فیصلہ ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے تھا-
پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے جس کا اعلان بوجوہ نہیں کیا جا رہا- پارلیمنٹ کو اپوزیشن کے بغیر چلایا جا رہا ہے - سلامتی اور دفاع کا ادارہ شدیدترین دباو¿ میں ہے -پاکستان کا میڈیا مثالی اور معیاری نہیں ہے-برطانیہ کے سابق وزیراعظم چرچل سے حالت جنگ میں ایک صحافی نے پوچھا کہ برطانیہ کا مستقبل کیا ہے تو چرچل نے جواب دیا کہ کیا برطانیہ کی عدالتیں لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں اور اگر کررہی ہیں تو برطانیہ کا مستقبل محفوظ ہے-جب بھی کوئی ریاست سیاسی معاشی پارلیمانی انتظامی سماجی اور اخلاقی بحران میں مبتلا ہو جاتی ہے تو اس ریاست کو سنگین بحران سے نکالنے کی آخری امید ریاست کی عدلیہ ہوتی ہے- پاکستان کے عوام کے لئے سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں واضح طور پر تقسیم نظر آ رہی ہے اور اس میں دو گروپ بن چکے ہیں- پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ سپریم کورٹ کے جج ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے بھی تیار نظر نہیں آتے-سپریم کورٹ کے ججوں نے ایک ہی ایشو پر دو فیصلے جاری کر رکھے ہیں- سپریم کورٹ بار اور لاہور ہائی کورٹ بار نے چند روز پہلے آل پاکستان وکلا کنونشن کا انعقاد کیا جس میں ایک قرارداد منظور کی گئی اور سپریم کورٹ سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ فل کورٹ بنا کر انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کرے تاکہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا ہو سکے- حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور فل کورٹ تشکیل دینے کی اپیل کی جسے چیف جسٹس پاکستان نے قبول نہ کیا اور اس سلسلے میں کوئی دلیل بھی نہ دی- سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آئین کے مطابق پنجاب میں انتخابات کرانے کا فیصلہ دیا جسے حکومتی جماعتوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور آج بدقسمتی سے صورت حال یہ ہے کہ پارلیمنٹ حکومت اور سپریم کورٹ آمنے سامنے کھڑی ہیں- قومی اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کر کے وزیراعظم اور کابینہ کو کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین ججوں کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا جائے اور پورے ملک میں ایک ہی روز انتخابات کرائے جائیں چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ بنا کر فیصلے پر نظر ثانی کریں- پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کی یہ پہلی مثال ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کی بجائے اس کے خلاف قرارداد منظور کی گئی ہے- اس قرارداد کی وجہ سے صورتحال اور بھی سنگین ہو گئی ہے اور کوئی بھی یقین سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ چند ہفتوں میں کیا ہونے والا ہے-
مسلم لیگ نون کے لیڈر میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے جن تین ججوں نے انتخابات کرانے کا فیصلہ دیا ہے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جانا چاہئے- انہوں نے کہا کہ اس بینچ میں دو وہ جج بھی شامل ہیں جنہوں نے ان کو اقتدار سے رخصت کیا تھا- پاکستان میں یہ روایت بڑی پختہ ہوچکی ہے کہ جب کوئی جج کسی ایک سیاسی جماعت کے حق میں فیصلہ دیتا ہے تو اس کی تعریف کی جاتی ہے اور وہی جج اس جماعت کے خلاف میرٹ پر فیصلہ دے تو اس کی مذمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی- جن تین ججوں نے پنجاب میں انتخابات کرانے کا فیصلہ دیا ہے یہ جج اس بینچ کا حصہ تھے جس نے عدم اعتماد کی تحریک کے دوران تحریک انصاف کے خلاف فیصلہ دے کر اتحادی جماعتوں کے لئے اقتدار میں آنے کیلئے آئینی راستہ ہموار کیا تھا- عمران خان اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ وہ حکمران جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ہیں - ان کی یہ ضد اور انا بھی قومی مفاد کے بالکل منافی ہے- پاکستان ایک غریب اور مقروض ملک ہے جس کے کروڑوں عوام آٹے کی بوری حاصل کرنے کیلئے لائنوں میں لگنے پر مجبور کردیے گئے ہیں - مقروض ملک کے" پرنس " کہتے ہیں صوبہ پنجاب کے انتخابات مئی میں کرائے جائیں خیبر پختونخوا کے انتخابات جولائی میں کرائے جائیں اور اگست میں وفاق سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں مدت پوری ہونے کے بعد نگران حکومتیں بن جائیں اور اکتوبر میں ان کے انتخابات کروائے جائیں- پاکستان کے شفاف کردار کے حامل نیک نام سیاست دان جماعت اسلامی کے امیر محترم سراج الحق نے راقم سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے درست فرمایا کہ پاکستان کے سیاستدان اور حکمران اشرافیہ عوام کے مقدر اور پاکستان کے مستقبل سے کھلواڑ کر رہے ہیں- پاکستان اس نوعیت کی مہنگی جمہوریت کا متحمل نہیں ہو سکتا جس پر غریب عوام کے اربوں روپے خرچ ہو جائیں اور انتخابات کے بعد سٹیٹس کو کے حامی منتخب ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ جائیں -کاش آج سپریم کورٹ میں جسٹس کارنیلئس جسٹس کیانی اور جسٹس صمدانی جیسے معیار کے جج بیٹھے ہوتے تو پاکستان کے عوام کو یہ بد نصیب دن نہ دیکھنے پڑتے - تاریخ کا سبق یہ ہے کہ عدالتی نظام کو مثالی اور معیاری بنایا جائے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کا انتخاب میرٹ اور صرف میرٹ پر کیا جائے اور اس مقصد کے لیے ایک قومی سطح کا جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن تشکیل دیا جائے-افسوس پاکستان کے عوام شخصیت پرستی کے مہلک مرض میں مبتلا ہیں اور قومی سلامتی کے تقاضوں کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں- عوام اگر سیاسی معاشی سماجی اور روحانی طور پر باشعور اور بیدار ہوتے تو حکمران اشرافیہ کو ان کے مقدر سے کھیلنے کی کبھی جرا¿ت نہ ہوتی-