آج کل چرچے تو اس فیصلے کے ہیں جوچیف جسٹس بندیال صاحب اوربینچ کے باقی دوججوں جسٹس اعجاز الاحسن اورجسٹس منیب اخترنے کیا ۔صبح سے شام تک اورشام سے رات گئے تک اخبارات ٹی وی چینلز اورسوشل میڈیااس پر تبصروں سے بھر ارہا۔ آج میں گذشتہ دنوںلاہورہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم کے ایک تاریخی فیصلے کا ذکر کروں گا جو گذشتہ ماہ انہوںنے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124(الف)کوقانون کی کتاب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیرکرتے ہوئے خارج کردیا انگریزی قانون کی بنائی ہوئی یہ دفعہ نہ جانے برصغیر کے کتنے حریت پسندوں کوکھاگئی، کتنے گھروں کے چراغ بجھا دیئے اورکالاپانی جیسے بلاخانوں کو آبادکرتی رہے ۔آگے بڑھنے سے قبل ذرا اس کا مضحکہ خیز متن ملاحظہ فرمالیں (اردوترجمہ) "جوکوئی شخص الفاظ سے خواہ وہ زبانی کہے جائیں یالکھے جائیں یااشاروں سے یادکھائی دینے والے اداکئے جائیں ۔مرکزی یاصوبائی حکومت کے خلاف جو قانون کے تحت قائم ہویانفرت یاحقارت پیدا کرنے کا اقدام کرے یاپھر اطاعت سے انحراف کواکسائے یااکسانے کااقدام کرے تو شخص مذکورہ کوعمر قید کی سزادی جائے گی یاکم مدت کی اس کے علاوہ جرمانہ بھی ہوسکتا ہے یاقید کی سزادی جائےگی جس کی معیاد تین برس تک ہوگی۔ اطاعت سے انحراف کی تشریح میں ان الفاظ میں عذاری اوردشمنی کے سب جذبات شامل ہیں ©"یہ مختصر سے تلخیص پیش کی ہے ورنہ اب تک برطانوی عدالتوں سے لے کرپاکستان کی عدالتوں ژ تک اس دفعہ کی تشریح وتعبیرکئی بارقانون کی کتابوں میں کی گئی ہے۔غلام ہندوستان میں یوں توتقریبا آزادی کے سبھی متوالے اس سے بھی زیادہ سخت قوانین ،حتی کہ بھگت سنگھ کی طرح دارکی رسیوں کوگلوبند سمجھتے ہوئے اپنی گردنوں کی زینت بناتے رہے۔بے شمار سیاسی کارکن پتنگوں کی طرح آزادی کی شمع پر مرتے اورمٹتے رہے ،مگر آزادی کی دیگر تحریکوں کے علاوہ منظم تحریک کے حوالے سے معروف ہونےوالی ایک "تحریک ریشمی رومال"تھی جس کے بانی "اسیر مالٹا" مولانا محمودالحسن تھے ۔غلام ھندوستان میں انگریز کے خلاف جدوجہد کاایک بڑاحصہ دارالعلوم دیوبند کارہا ہے ۔تحریک ریشمی رومال بھی مولانا محمودالحسن کے بعدمولاناعبیداللہ سندھی کی کمانڈ میں آگے بڑھی بارے ذکراس تحریک کاہوجائے اورپھر تعزیرات کی دفعہ 24(الف) کا۔"تحریک ریشمی رومال"کی بنیاد دراصل ایک خط تھا جواردو زبان میں زردرنگ کے تین ریشمی ٹکڑوں پر لکھاگیا ۔جن میں دوٹکڑوں پر مولانا عبیداللہ سندھی کے دستخط تھے ۔ایک ٹکڑے پرکسی مولوی منصور نامی شخص کے دستخط تھے ۔کسی طرح ان میں سے ٹکڑا(خط)انگریز C.I.Dکے ہاتھ لگ گیاجس کی بنیاد پر بغاوت کی ایک دیوار کھڑی کرکے اسے "ریشمی رومال تحریک"کانام دے کر قانونی کاروائی شروع کردی گئی (یہ خط انڈیا آفس لائبریری جسے اب برٹش نیشنل لائبریری کانام دے دیاگیا ہے)میں اب بھی موجود ہے۔ 1909 میں مولانامحمودالحسن نے مولانا عبیداللہ سندھی کو دارالعلوم دیوبند طلب کرکے چارسال تک ان کی تربیت کی جس میں مولانا احمد علی لاہوری اورمولانا صادق سندھی بھی انکے ساتھی رہے ۔1915 میں عبیداللہ سندھی افغانستان اورروس گئے "تحریک ریشمی رومال "کے تمام راہنما بالآخر انگریز نے گرفتار کرلئے اور1917میں ساٹھ کے قریب راہنماﺅں کےخلاف ایک مقدمہ 124 (الف) کے تحت عدالت میں پیش کیاگیا۔ معروف قیدیوں میں مولانا عبیداللہ سندھی ،مولانا احمد علی لاہوری ،مولانا ابوالکلام آزاد، مولاناحسرت موہانی ،مولانا عبدالقادر قصوری ،لائل پور(فیصل آباد) کے عبدالباری ،شیخ عبدالرحیم سندھی ،مولانا عزیز گل ایک ہندواورایک سکھ شامل تھے ۔جن میں کئی ایک کو ملک چھوڑنا پڑا،کئی زندگی بھرکیلئے جیلوں کارزق بن گئے اورکچھ کوکالا پانی بھیج دیاگیا۔اس طرح 124 (الف) کتنی ہی زندگیاںمحض اسلئے برباد کرگئی کہ وہ اپنے وطن کی آزادی چاہتی تھیں ۔وقت اپنے ایک نظام کے ساتھ ساتھ چلتا رہا یہاں تک کہ 1947 آگیا اوربرصغیر آزاد ہوگیا۔
کروڑںلوگ نے اپنی آنکھوں سے یونین جیک اترتے انگریز کو رخصت ہوتے اورپاکستان وھندوستان کی شکل میں دوآزاد ملکوں کے قیام کے حسین منظر کانظارہ کیا۔"وہ "جس سے چاہے ملک چھین لیتا ہے اورجسے چاہے ملک عطا کردیتا ہے "کامطلب کروڑوںانسانوں کی سمجھ میں آگیا۔پاکستان بنا تو قائد اعظم کی وفات کے بعد اس کے حکمران نت نئے کالے قوانین بناتے اور اس کا غلط استعمال کرکے مخالفین کوجیلوں میں ٹھونستے رہے۔ 1951میں منظر عام پر آنے ولا"راولپنڈی سازش کیس"بھی بغاوت تھا۔جس میں جنرل اکبرخاں، سیدسجادظہیر ،فیض احمد فیض،میجر اسحاق، ظفراللہ پوشنی اوربائیں بازو کے دیگر کئی ایک راہنما شامل تھے ۔حسین شہید سہروردی اورارباب سکندر خاں خلیل اوردیگر دوتین وکلاءنے اس مقدمے کی پیروی کی۔ارباب سکندر خاں خلیل کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا1970ءکے انتخابات کے بعد وہ صوبہ سرحد(KPK)کے گورنر بھی رہے وہ بطورایک فوجداری وکیل کے بڑے ماہر مانے جاتے تھے۔فیصلے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ اگرحسین شہید سہروردی اس مقدمے میں وکیل نہ ہوتے تو سب کوپھانسی پر لٹکادیاجاتا۔ 124 (الف)کے اس مقدمے میں سالہاسال تک فیض اورانکے ساتھیوں کوجیل میں رہناپڑا۔جنرل ایوب خاں نے بھی اس کالے قانون کاکھل کر استعمال کیا۔ حسن ناصر شہید سے لے کرشیخ مجیب الرحمان تک کو اس قانون کی زد میں رکھا۔ایوب خاں رخصت ہواتوجنرل یحییٰ خاں نے خاص طورپر مشرقی پاکستان کی بنگالی سیاسی قیادت کو مجبور محض بناکررکھ دیا۔سقوط ڈھاکہ بجائے خود ایک بہت بڑا موضوع ہے مگریہ سانحہ ہوکررہا ۔ یہاں مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے اورقوم کو 1973 کے متفقہ آئین کا تحفہ دیا۔مگر افسوس کہ اس تحفے کے ساتھ ساتھ انہوں نے 124 (الف)سمیت کسی کالے قانون کاخاتمہ کرنے کی بجائے ساراعرصہ ملک بھر میں ایسے ہی دیگر قوانین کاسہارا لے کر مخالفین کوجیلوں میں ڈالا۔76ءمیں مجھ پر ایک قابل اعتراض تقریر کرنے پر 124 (الف) کامقدمہ درج ہوااورمیں اوائل 76ءسے لےکر اواخر76ءتک گوجرانوالہ جیل اورکیمپ جیل لاہور میں رہا۔اسکے بعد اگلے ہی سال ذوالفقار علی بھٹو سے اقتدار کی راہداریاں جو روٹھیں اور نظر اٹھا کے دیکھا توپاکستان کے سیاہ اورسفید کامالک جنرل ضیاءالحق تھا۔جس کے عہد میں ظلم وستم کے باب میں قرون وسطی کی یادتازہ کی گئی اورمخالفین کوکوڑے مارے گئے ،قلعوں میں نظر بند رکھا گیا۔ سب سیاسی مخالفین کوپابجولاں کردیا۔ایک سیاہ دور اورسیاہ قوانین تھے ۔2004میں 124ّّ(الف) کا چوتھا مقدمہ میرے خلاف درج ہواجس میںمیرے دوست سابق وفاقی وزیر امتیازصفدروڑائچ اور پاکستان پیپلز پارٹی گوجرانوالہ کے میاں اظہر احسن ڈار بھی ملزمان میں شامل تھے۔پچھلے ماہ جب جسٹس شاہد کریم صاحب نے اس قاتل اورغیر انسانی دفعہ کو تعزیرات پاکستان سے ختم کرنے کا حکم دیاتومجھے اپنی عین جوانی (prime of youth)کے خوبصورت اور مہم جودن یاد آگئے اوراب جب یہ 124(الف)ختم ہوئی تومعلوم ہواکہ جوانی، جدوجہد،سیاسی عروج کی مجلسیں،صبحو ںوشاموں کی امنگیں،احباب کاساتھ سب کچھ رخصت ہوچکا ہے۔