اسلام آباد+ لندن (خبرنگار خصوصی+ نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وفاقی حکومت نے انتخابات از خود نوٹس کے فیصلے پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ نے جو فیصلہ دیا ہے وہ عدالتی کارروائی پر سوالیہ نشان ہے۔ دوسری جانب نواز شریف اور مریم نواز نے بھی چیف جسٹس سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ جو پٹیشن مسترد ہوگئی اس پر تین رکنی بینچ بنایا گیا، جب پٹیشن ہے ہی نہیں تو بنچ کیوں بنا اور فیصلہ کیوں آیا؟۔ جس فیصلے کو اکثریتی ججز نہ مانیں اس کو عوام کیسے مان لیں؟۔ سیاسی جماعتیں الیکشن سے بھاگتی نہیں، یہ معاملہ الیکشن کا نہیں رہا ہے، بنچ فکسنگ کا معاملہ بن گیا ہے، آئینی بحران کا جنم اگر سپریم کورٹ سے ہو تو اس کے فیصلے پر کون اعتماد کرے گا؟، اختیارات کا ناجائز استعمال اور آئین کی مرضی کی تشریح قبول نہیں کی جاسکتی۔ پریس کانفرنس میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کا بڑا فیصلہ آیا ہے، اس فیصلہ کے بعد اکثریت ججز کا فیصلہ مکمل ہوگیا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے تینوں برادر ججوں کے فیصلے سے اتفاق کیا اور اس فیصلے کو مسترد کردیا ہے، یہ پٹیشن پہلے ہی 4 ، تین کے فیصلے سے مسترد ہوچکی ہے، جو پٹیشن مسترد ہوگئی اس پر تین رکنی بنچ بنایا گیا، جب پٹیشن ہے ہی نہیں تو بنچ کیوں بنا اور فیصلہ کیوں آیا؟، سپریم کورٹ کے اکثریت کے 4 ججز نے کہا کہ فل کورٹ بنا دیں، سیاسی جماعتوں نے کہا اس معاملے پر فل کورٹ بنا دیں تاکہ عوام اس فیصلے کو تسلیم کرلے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اس فیصلے پر سوال اٹھائے ہیں، اس کس کا ایک سیاسی پہلو اور ایک عدالتی پہلو ہے۔ سوال اٹھتے ہیں عدالتی سہولت کاری کیوں؟، تین رکنی بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن جو متنازعہ جج ہیں انہیں بٹھا دیا جاتا ہے، عدالتی اور آئینی تاریخ میں ایسا فیصلہ نہیں ہوا۔ پھر فیصلہ دیدیا جاتا ہے اور حکومت پر مسلط کردیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس یہ بنچ کیسے تشکیل دے سکتے ہیں؟۔ سیاسی جماعتیں عدالت میں موجود تھیں لیکن ان جماعتوں کو نہیں سنا، جن کی پٹیشن تھی انکو بلا بلا کر سنا۔ اسد عمر کو بلایا کی معیشت کی تفصیل بتائیں، کیوں ان 13 جماعتوں نہیں سنا گیا؟، سپریم کورٹ کی لاج رکھنے کے لئے سن لیتے، تیرہ جماعتوں کے وکلاءکی حاضری نہیں لگائی گئی، کیونکہ عمران خان نے کہہ دیا تو الیکشن کرانے ہیں؟۔ خود 90 روز کی خلاف ورزی کرچکے ہیں، اختیارات کا ناجائز استعمال اور آئین کی مرضی کی تشریح قبول نہیں کی جاسکتی۔ پنجاب میں اصول مکمل کیا گیا لیکن خیبرپی کے میں نہیں۔ پارلیمنٹ نے بات کی کہ آپ ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں مداخلت کررہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پٹیشنر کی نیت کو دیکھ کر سوموٹو لینا چاہیے، اس سوموٹو نے عدالت کو تنازعات سے دوچار کردیا ہے۔ مریم اور نگزیب نے کہا کہ اس معاملے میں پٹیشنر گھڑی چور، ٹیریان کا والد تھا، آج عمران داری پر آئین کی فتح ہوئی۔ چیف جسٹس کی حیثیت متنازعہ ہوچکی ہے، اس لئے مستعفی ہوجائیں۔ یہ تین رکنی بنچ کا فیصلہ غیر آئینی و غیر قانونی ہے، ملک کی آئینی تاریخ میں ایسا فیصلہ نہیں ہوا۔ مریم اور نگزیب نے کہاکہ عمران خان کا خط آئینی چودھری شجاعت کا خط غیر آئینی، سائفر پر یہ سارا تماشا رچایا گیا۔ 2017 ءمیں بلیک ڈکشنری کا سہارا لیکر نوازشریف کو ڈس کوالیفائی کیا گیا، ایسے فیصلے ملکی ترقی پر اثر انداز ہوتے ہیں، جب اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوتی ہے تو انہیں جانور کہتا ہے، جب عدالت بلاتی ہے تو بدمعاش اسلحہ لے کر عدالت کو ڈراتا ہے، یہ ٹیریان کے والد کی سہولت کاری ہو رہی ہے۔ جب سیاست دان ملک ٹھیک کر رہا ہوتا ہے تو اس کے خلاف سازش کی جاتی ہے، یہ سازش اور کھلواڑ اب ختم ہونا چاہیے۔ یہ کوئی الیکشن کا معاملہ نہیں ہے، الیکشن پورے ملک میں ایک ہی وقت پر ہونے چاہئیں۔ نواز شریف نے ٹویٹ میں کہا کہ عدالتیں قوموں کو بحرانوں سے نکالتی ہیں نہ کہ بحرانوں میں دھکیلتی ہیں۔ چیف جسٹس نے نہ جانے کون سا اختیار استعمال کرکے اکثریت فیصلے پر اقلیتی رائے مسلط کر دی۔ اپنے منصب اور آئین کی توہین کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والا چیف جسٹس مزید تباہی کرنے کے بجائے فی الفور مستعفی ہو جائے۔ اپنے ٹویٹ میں مریم نواز نے اور کہا کہ اختیارات کے غلط استعمال نے سپریم کورٹ میں بغاوت جیسی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ عمران کی حمایت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے قانون و آئین کی خلاف ورزی کی، نامور ججز نے چیف جسٹس کے طرز عمل اور تعصب پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ آج تک کسی چیف جسٹس پر اس قسم کے مس کنڈکٹ کے الزامات نہیں لگے۔ تحریک انصاف کی طرف چیف جسٹس کا جھکاو¿ نمایاں ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو استعفیٰ دینا چاہئے۔