یورپ تیرے روپ ہزار 

یورپ تیرے روپ ہزار زندگی میں کچھ نئی چیزوں کی تلاش اور دنیا کے چھپے ہوئے گوشوں کی کھوج اور جستجو کی خواہش بہت سے دلوں میں مچلتی رہتی ہے دنیا کے گلوبل ویلج بننے اور جدید دور کی سہولیات نے اب فاصلوں کو بھی سمیٹ کے رکھ دیا ہے دنیا بھر سے سیاح اب ملکوں ملکوں نگر نگر اور شہر شہر گھومنے اور جھومتے نظر آ تے ہیں اور جو ان جگہوں تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے وہ ان ملکوں پر لکھے جانے والے سفر نامے پڑھ کر ہی اپنا شوق سفر پورا کر لیتے ہیں یورپ تیرے روپ ہزار حال ہی میں منظر عام پر آ نے والا سفر نامہ ہے جو فرانس جرمنی اور بلجیم کے سفر کی روداد ہے جسے ایک روشن خیال اور سفر نامے کی دنیا میں نووارد ذوالفقار علی رانا نے لکھا ہے جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں بچوں کے کینسر کے علاج کے اسپیشلسٹ ہیں اور چلڈرن ہسپتال ملتان میں ایک مسیحا بن کر کینسر اور تھلیسیمیا میں مبتلا بچوں کو زندگی کے اندھیروں سے نکال کر امید اور روشنی کے دیپ جلا رہے ہیں ان بیماریوں کا شکار کئی بچے صحت یاب ہو کر کامیاب شہری کی زندگی بسر کر رہے ہیں ایک اچھے ڈاکٹر اور مسیحا کی طرح انہوں نے ایک ادیب کی حیثیت سے بھی بالغ نظری اور روشن خیالی کا مظاہرہ کیا ہے ان کا سفر نامہ یورپ تیرے روپ ہزار نہ صرف یورپ کی رنگینیوں وہاں کی مشہور تاریخی عمارات اور تہزیب و ثقافت کا آ ئینہ دار ہے بلکہ ہماری اپنی مشرقی اقدار اور روایات کا مغرب سے موازنہ کرتا بھی دکھائی دیتا ہے:بقول شاعر
 ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
 واں کنٹر سب بلوری ہیں۔ یہاں ایک پرانا مٹکا ہے
 فرانس میں ایفل ٹاور کی بلندی کے ساتھ ساتھ پیرس کی شانزے لیزے اسٹریٹ کی رنگینی اور بھول بھلیوں میں انہیں یہاں کی پستی اور چھپا کرب بھی محسوس ہوتا ہے کولمبس ابن بطوطہ یوسف کمبل پوش مستنصر حسین تارڑ عطاء الحق قاسمی امجد اسلام امجد اور فرخ سہیل گوئندی نے سفر نامے کی صنف کو مقبول بنانے اور اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اب ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا جیسے نئے اور روشن خیال سفر نامہ نگار نے اس روایت کو آ گے بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے سادگی بیان بذلہ سنجی لطائف قہقہوں اور دلچسپ پیرائے نے یورپ تیرے روپ ہزار کو قاری کے لئے خاصے کی چیز بنا دیا ہے۔
 اس سفر نامے کا انتساب مصنف نے پیارے اباجی رانا فتح محمد مرحوم کے نام کیا ہے جو ان کے پہلے حرف کے استاد بھی ہیں ادب اور کتاب دوست مظہر سلیم مجوکہ نے کتاب ورثہ کیزیر اہتمام نہایت نفاست سے دیدہ زیب انداز سے اس کی اشاعت کو ممکن بنایا ہے جدید فکر و سوچ رکھنے والے آ رٹسٹ عمران شناور کی صلاحیتوں کے رنگ بھی یورپ تیرے روپ ہزار کے سرورق کے رنگوں میں نمایاں ہیں جو قاری کی توجہ کتاب کی طرف مبذول کراتے ہیں گویا اس تین ملکی سفر نامے کا معاملہ ایک ٹکٹ میں دو نہیں بلکہ تین مزے والا بن جاتا ہے۔
 معروف ادیب اور سفر نامہ نگار عطاء الحق قاسمی نے یورپ تیرے روپ ہزار پر اپنی رائے دیتے ہوئے بجا کہا ہے کہ یورپ اور دیگر ممالک کی طرح اگر پاکستان کے سیاحتی مقامات کو محفوظ اور پر کشش بنا دیا جائے تو یہاں بھی سیاحت کے فروغ کے ساتھ ساتھ سیاحوں اور دولت کی ریل پیل ہو جائے اور یہاں بھی گویا ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے دنیائے سیاحت کے جہاں گرد فرخ سہیل گوئندی کے مطابق یورپ تیرے روپ ہزار میں مصنف نے فرانس جرمنی اور بلجیم کے سماج اور تاریخ کو خوب کھنگالا ہے جس سے ان کی تاریخ میں دلچسپی بھی عیاں ہوتی ہے اور درحقیقت یہی وہ کمال ہے جو کسی بھی شاندار سفر نامے کا حسن ہوتا ہے کالم نگار محمد نسیم شاہد اور راقم نے بھی اپنی آ را کے ذریعے یورپ تیرے روپ ہزار کے کئی چھپے گوشوں کو اجاگر کیا ہے یورپ کی سیر میں بھی ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا مشرق کی روایات اور اپنی مٹی کو نہیں بھولے یورپ میں بھی ان کو اپنے اسلاف اور اقدار کی جھلک نظر آ تی ہے ۔ 
فرینکفرٹ میں گوئٹے یونیورسٹی اور یورو کا شہر انہیں اپنی جانب بلاتا ہے تو جرمنی میں وہ نقوش اقبال رح کی تلاش میں نکل پڑھتے ہیں فرینکفرٹ میں محبت کے پل پر محبت کے تالے انہیں پاکستان کے درختوں پر لٹکے دھاگوں کی یاد دلاتے ہیں ہٹلر جرمنی کا ہیرو ہے یا ڈکٹیٹر یہ سوال بھی انہیں ستاتا ہے برسلز کی خواہشوں کی دیوی اور جھنگ کی ہیر کا موازنہ بھی ان کے سفر نامے میں چھلکتا ہے خوشبوؤں کے شہر پیرس کی شانزے لیزے اسٹریٹ پر پاکستانی مسافر کی خوش خرامی اور دریائے سین کے شہر میں بہتے نظارے بھی سیر کا مزہ دوبالا کرتے ہیں انگلستان کی شہزادی لیڈی ڈیانا کی موت کی سرنگ اور ایفل ٹاور کے سفید کبوتر بھی منظر نگاری کی اہم مثالیں ہیں۔
 پیرس کے جیب کتروں گرافٹی آ رٹ اور پاکستان کی دیواروں پر لکھے گئے اشتہارات کے تذکرے کے علاوہ ڈزنی لینڈ کے حیرت کدے نوٹرے ڈیم کے کبڑے عاشق اور کتے تیتھوں اتے جیسے ابواب بھی قاری کی دلچسپی کا ساماں لئے ہوئے ہیں یہاں مجھے معروف سائیکالوجسٹ بینش عابد کی رائے سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا نے اس ٹینشن زدہ ماحول اور حبس کے موسم میں یورپ تیرے روپ ہزار کی صورت ایسا نسخہ لکھا ہے جسے پڑھ کر ادب کے قاری خود کو مسرت انبساط اور خوشی اور سکون کے اس جہان حیرت میں محسوس کریں گے جس کا انہیں اندازہ سفر نامے کے مطالعہ سے ہی ہوگا سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سفرنامے کی آمدنی کینسر اور تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کے علاج معالجے کے لیے استعمال ہوگی یعنی کسی درد مند کے کام آ کسی ڈوبتے کو اچھال دے والا معاملہ ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ آ مین۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن