آج میںاپنے قارئین کو شمالی علاقہ جات کی تاریخ کے اُس دور میں لے جانا چاہتا ہوں جس دور کی دو بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے آپس میں ٹکرائیں۔ یہ طاقتیں تھیں برٹش انڈیا اور روس۔یہ دونوں بڑی طاقتیں اپنی اپنی ایمپائرز کو جغرافیائی طور پر وسعت دینے میں کوشاں تھیں۔ انگریز ہندوستان کی سرحدوں کی وسعت کے ساتھ ساتھ انہیں مستحکم و مستقل کرنا چاہتے اور روس سنٹرل ایشیاء پر قبضے کے بعد ہندوکش سے اس طرف آگے بڑھنا چاہتا تھا۔لہٰذا انگریزوں نے سفید ریچھ کو ہندوکش کے اُس طرف روکنے کے لئے تبت سے لیکر بحر ہند تک اپنی مغربی سرحد کی نشاندہی کر کے اسے مستقل شکل دینے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لئے اِن علاقوں میں اپنے ایجنٹ بھیجے ۔یہ ایجنٹ بنیادی طور پر تو فوجی تھے لیکن سیاسی اور سفارتکاری کے ہنر میں بھی ماہر تھے۔ شمالی علاقہ جات میں پہلا برٹش سفارتی ایجنٹ کرنل ایجرٹن ڈیورنڈ تھا جو 1889 سے لیکر 1894تک وہاں رہا۔ اِس حیثیت سے اُس نے سری نگر سے لیکر گلگت ۔ چترال۔ ہنزہ اور تمام اہم علاقوں کا دورہ کیا۔ وہاں راجوں مہاراجوں سے ملا۔عوام میں میل جول بڑھایا اور یوں ہر وقت لڑنے مرنے پر تیار رہنے والے قبائل کو اکٹھا کر کے ایک قومیت کی شکل دی۔اِس کے لئے اُسے کئی لڑائیاں لڑنا پڑیں۔ ذاتی تکلیفات برداشت کرنا پڑیں لیکن بالآخر وہ ایک ایسی سرحدی لکیر قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا جو آج تک قائم ہے۔
کرنل ایجرٹن ڈیورنڈ نے بعد میں اپنے تمام تجربات و مشاہدات ایک کتابی شکل میں قلمبند کئے جسے ''Making of a Frontier'' کا نام دیا۔ اِس کتاب میں اُس نے اپنی فوجی مہمات اور اُس وقت کی مشکلات پر تو تفصیلی روشنی ڈالی ہی ہے لیکن اُس کے ساتھ ساتھ اُس دور کے مسلمانوں کی زبوں حالی۔ ڈوگرہ فوجیوں کی طرف سے اُن کے ساتھ جانوروں والا سلوک۔ لوگوں کا رہن ہن۔ رسم و رواج۔ تہوار و غیرہ سب باتوں کا مکمل احاطہ کیا ہے۔ یہ کتاب اب نایاب ہے۔ آج سے کئی سال پیشتر جب مجھے یہ کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا تو میں اس سے بہت متاثر ہو ا خصوصی طور پر کیونکہ میں خود شمالی علاقہ جات میں ایک سال گزار چکا تھا۔ جگہوں کے نام اور لوگ تو میرے لئے نئے نہیں تھے لیکن تہذیبی اور ثقافتی تبدیلی میں نمایاں فرق آچکا تھا۔ یہ کتاب ہماری تاریخ اور ہماری ثقافت کے ایک اہم باب کی محافظ ہے۔
اس کتاب کو میں ذاتی طور پر قومی ورثے کی اہمیت دیتا ہوں۔ جن الفاظ میں ہمارے شمالی علاقہ جات کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت کی گئی ہے اس سے بہتر ممکن نہ تھا۔ مثلا ًمصنف کے مشاہدے کے مطابق پر ایک مسلمان قلی سے 150 پونڈ کا وزنی خیمہ اٹھوا کر ڈوگرہ سپاہی اُسے جانوروں کی طرح ڈنڈے مارتے ہوئے رہائی کیمپ تک لائے۔ ہیضہ سے مرے ہوئے فوجیوں کا قبرستان۔ بلتی قلیوںکی حالت زار اور بوجھ اٹھا اٹھا کر کچھ مر گئے اور باقیوں کی پیٹھ پر بڑے بڑے زخم ڈوگرہ وراج کے مظالم کی منہ بولتی تصویر یں ہیں۔ ڈوگرہ جرنیل بھوپ سنگھ اور زور آور سنگھ کی تباہی بھی عسکری لحاظ سے دلچسپ واقعات ہیں۔
چترال کی تفصیل دلچسپ ہونے کے ساتھ المناک بھی ہے۔ مہترچترال کے متعلق مصنف رقمطراز ہے کہ مہتر کا دربار سر سے پاؤں تک سازشوں اور جوڑ تو ڑ کا مجسمہ تھا۔ اس کے ہاتھ اپنے قریبی رشتہ داروں کے خون سے سرخ تھے۔ اس نے اپنے تین میں سے دو بھائیوں کو قتل کرا دیا تھا اور تیسرا کابل میں جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ اُس دور میں شمالی علاقہ جات میں پریوں کے قصے کہانیاں عام تھے۔ مصنف نے اس تہذیبی ورثہ کی تفصیل ان الفاظ میں دی ہے۔’’ جن لوگوں نے ان پر یوں کو دیکھا تھا وہ سب یک زبان ہو کر کہتے تھے کہ ان کی شکل بالکل خوبصورت عورتوں جیسی ہوتی ہے۔ یہ ہمیشہ سفید لباس میں ملبوس رہتی ہیں۔ دو سال پہلے تو وادی کے بہت سے لوگوں نے ان پر یوں کو ترچ میر کی جانب ہوا میں پرواز کرتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ ان میں بعض پیدل تھیں اور بعض گھوڑوں پر سوار تھیں۔‘‘ وہاں کے رسم ورواج کے متعلق مصنف یوںرقم طراز ہے۔’’اس روز سہ پہر کے وقت عذر جان مجھ سے ملاقات کے لئے آیا۔ ملاقات کے ساتھ ہمیں بہت دیر تک رقص و سرود کا مظاہرہ دیکھنے کا بھی موقعہ ملا۔ گویا ایک جبری مشقت تھی۔ آرکسٹرا کیا تھا کوئی بارہ کے قریب ڈھولکیاں تھیں۔ چھ بڑے بڑے ڈھول تھے جو دونوں طرف سے پیٹے جاتے ہیں اور تین نفیر یاں تھیں۔ ان کو بغیر کسی ترتیب اور آہنگ کے پیٹا اور بجایا جا رہا تھا۔‘‘ اپنی ایک جنگ کے متعلق کرنل ایجرٹن لکھتا ہے۔ ’’جونہی میں اس سلوپ کی طرف مڑا۔ صرف ایک لخطے کے لئے رُکا اور قلعہ پر نظر ڈالی تو اچانک ایک گولی آکرمجھے لگی اور میں نیچے گر گیا۔ ‘‘کرنل ایجرٹن نے اپنی اس شاندار کتاب کا اختتام ان الفاظ میں کیا۔’’ زمانہ جنگ میں میرے بعد بہت سے افسر گلگت ایجنسی میں آئے اور یہاں کے معاملات سے عہدہ برا ہوئے۔ کام کا آغاز کرنے اور مشکلات کا حل تخلیق کرنے کا جو سرور مجھے ملا وہ کسی اور کے حصے میں نہ آیا۔ یہ میرا ہی نصیب تھا کہ میں اِن علاقوں میں بعد میں کئے جانے والے بہت سے سفروں کاپہلامسافرتھا۔‘‘
شمالی علاقہ جات ویسے تو 1840ء سے کشمیر کا حصہ ہے اور کشمیر کا حصہ ہونے کا مطلب ہے ڈوگرہ راج اور ڈوگرہ راج مسلمانوں پر ظلم وستم کے لئے مشہور تھا۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے۔سکردو اور گلگت میں ڈوگرہ فوجی چھاونیاں تھیں۔ اِن چھاونیوں کے لئے راشن اور ایمونیشن سری نگر سے لایا جا تا تھا۔ اُس دور میں اِن چھاونیوں تک نہ تو کوئی مناسب سڑکیں تھیں اور نہ کوئی ٹرانسپورٹ۔لہٰذا یہ سارا کام بلتی مزدوروں سے لیا جاتا تھا۔ یہ تقریباً 150میل کا فاصلہ ہے جو سب کا سب پہاڑی اترائی اور چڑھائی ہے۔ ڈوگرہ فوجی مسلمان قلیوں کو زبردستی پکڑ کر لے جاتے۔ پھر اِن سے بوجھ اٹھوا کر جانوروں کی طرح ڈنڈے مار کر چلاتے۔ راستے میں کھانے پینے کا بھی کوئی بندوبست نہ تھا۔ مزدور جو روٹیاں گھر سے پکوا کر لاتے تھے کئی کئی دن وہی کھا کر گزارہ کرتے ۔ پانی دریا کا پیتے۔اُن میں سے اکثرہیضے کا شکار ہو کر راستے ہی میں راہی ملک عدم ہوجاتے لیکن ڈوگروں کو ان کی بیماری۔ اِن کی خوراک یا اِن کی موت کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ پھر گلگت اور سکردو چھاونیوں میں ڈوگرے سولجرز زبردستی نوجوان لڑکیاں پکڑ کررات کے لئے لاتے لیکن مسلمان غریب دہائیاں دینے کے علاوہ کچھ بھی نہ کر سکتے۔ زندگی جانوروںسے بھی بدتر تھی۔ ڈوگرہ سپاہیوں کے خلاف کسی قسم کی شکایت کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔
سرحدوں کی تلاش
Apr 08, 2024