میرے پچھلے کالمز اٹھا کر دیکھ لیں ، میں نے بار بار لکھا ہے کہ پاکستان دشمن قوتیں ، اسلام دشمن قوتیں اور عوام دشمن قوتیں عوام اور افواج ِ پاکستان کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی مسلسل کوشش میں ہیں۔ یہ ہمیشہ کی طرح اب پھر پہلے دونوں کے درمیان فاصلے بڑھائیں گی اور اس کے بعد اپنی توپوں کا رخ افواج پاکستان کی طرف موڑ دیں گی۔ ایک بار پھر وہی ہو رہا ہے۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے بہانے افواج پاکستان کو دھر لیا گیا ہے۔ حالانکہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کا پہلا بینیفشری پاکستانی انویسٹر ہے ، دوسرا بینیفشری کنسٹرکش کا شعبہ ہے اور پھر نہ جانے کتنے مزدور اور تاجر پاکستان کے اس لیڈنگ پراجیکٹ سے فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ہاؤسنگ کے شعبے کا آغاز کرنے والا یہ پراجیکٹ اپنی شفافیت ، سرمایہ کاری کے تحفظ اور اربوں روپے کے ٹیکسز کی ادائیگی میں آج بھی سرفہرست ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کی اس شعبے میں سرمایہ کاری کو تحفظ جتنا ڈی ایچ اے میں حاصل ہے کسی دوسرے شعبے میں یا پراجیکٹ میں نہیں ہے۔ کسی کو بھی یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ ڈی ایچ اے کے خلاف پراپیگنڈا کئی برس پہلے عائشہ صدیقہ سے لکھوائی گئی کتاب ملٹری انکارپوریٹڈ، ’’ انسائیڈ پاکستانز ملٹری اکانومی ‘‘ کا ہی تسلسل ہے حالانکہ اس شعبے میں فوج کا کردار آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
پچھلے دوسالوں میں ملک کی اکانومی کو زمین بوس کر دینے کے بعد پاکستان دشمن قوتوں خصوصاً بھارت کا خیال تھا کہ پاکستان ملٹری فرنٹ پر بھی منہ کے بل جا پڑے گا۔ ٹیسٹر کے طور پر پاکستان میں دہشت گردی کو ایک بار پھر پوری قوت سے برپا کیا گیا اور اس بار نشانہ عوام یا مساجد یا بازار نہیں تھے بلکہ ملٹری انسٹالیشنز تھیں اور براہ راست فوجی جوان تھے۔ پھر اسی دوران ایرانی سرحد کے اندر سے پاکستان پر راکٹ حملہ ہوا اور تیسری مسلسل واردات افغانستان کی طرف سے شروع کی گئی۔ لیکن افواج پاکستان کی طرف سے اینٹ کے جواب میں پتھر پا کر بلکہ منہ پہ کھا کے ان کو کہنا پڑا کہ پاکستان کی اکانومی کی کمزوری کو افواج پاکستان کی کمزوری نہ سمجھا جائے بلکہ بات اس کے بالکل برعکس ہے۔ مسلح افواج کی متوازی اکنامک سرگرمی دراصل پاکستان کے دفاع کی وہ حکمت عملی ہے جس نے پاکستان کے دشمنوں کے حوصلے پست کر رکھے ہیں۔
یہ بات مختلف بھارتی تھنک ٹینکس کے منہ سے اس وقت نکلنا شروع ہوئی جب پاکستان نے افغانستان کو پہلے بار بار وارننگ دی اور اس کے بعد عملی طور پر جواب دیا۔
میں تو اب اس بات پر بھی اتفاق نہیں کرتا کہ کہسار باقی افغان باقی کیوں یہ وہ افغان ہیں ہی نہیں بلکہ کافروں کے ٹکڑوں پر پلنے والے افغان کہسار کہلانے کے لائق ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان نے ان کو ہلکا سا ٹریلر دکھایا تو انڈین تجزیہ کاروں کو غوطے آنا شروع ہوگئے کہ ایک طرف پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں لیکن دوسری طرف پاکستان کا دفاع پہلے سے زیادہ مضبوط بلکہ اگریسو نظر آ رہا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے غالباٍ شوکت عزیز کی حکومت سے پہلے سننے میں آ رہا تھا کہ پاکستان میں سروے کروایا گیا ہے کہ ہربار معاشی دھچکہ لگنے کے باوجود گرتا پڑتا پاکستان بار بار کیسے پھر سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو پتہ چلا کہ پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اس لیے زراعت کی بنیاد پر بچ نکلتا ہے اور زراعت کو پاکستان کا ایک ادارہ زرعی ترقیاتی بینک کسانوں کو آسان شرائط پر قرضے دیتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے ایگری سیکٹر کو آکسیجن ملتی ہے اور پھر پورا ملک سانس لینے لگتا ہے۔
سروے کے اس نتیجے کے آنے کے بعد پاکستان میں زرعی ترقیاتی بینک کو بند کرنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن بینک کے ملازمین کی مزاحمت کے بعد بینک کو مکمل طور پر بند تو نہ کیا جاسکا لیکن کمزور کرکے پھینک ضرور دیاگیا۔ یہی سب کچھ عرصہ دراز سے افواج پاکستان کے ساتھ بھی کیا جا رہا ہے جس کی ایک ایپیسوڈ اس وقت ڈی ایچ اے کو ٹارگٹ کر کے چلائی جا رہی ہے۔
میں نے ذاتی طور پر ایک سال اپنی فیملی کے ساتھ عسکری ہاوسنگ سوسائیٹی کے شہداء ٹاون لاہور میں گزارا ہے۔ یہاں پانچ مرلے کے چھوٹے لیکن بہت پیارے اورخوبصورت فلیٹس ہیں جو ناٹ فار سیل ہیں اور چھوٹے رینک کے فوجی شہدا کے ورثاء کی ملکیت ہیں۔ یہ انتہائی بلکہ ناقابل یقین مناسب کرائے پر سِول فیمیلیز کو دیے جاتے ہیں اور ان کا کرایہ شہدا کے ورثاء کو بھیجا جاتا ہے۔ یہاں سیکیورٹی کا انتظام ، مارکیٹس میں روزمرہ کی اشیاء کا معیار اور رہائشیوں کا اخلاق ، میل جول۔ یوں لگتا ہے گویا ہم دنیا کی سب سے پرامن اور خوبصورت بستی میں رہ رہے ہیں۔
لطف کی بات یہ ہے یہاں ننانوے فیصد کم آمدنی والے میرے جیسے سویلین رہتے ہیں جن سے لیے گئے کرائے کے پیسے شہداء کے سویلین وارثوں کو جاتا ہے۔ یہی میکنزم تمام فوجی عسکری اور ڈی ایچ اے پراجیکٹس کا ہے جہاں ریٹائرڈ ، زخمی اور شہید فوجیوں کی فلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی اکانومی کو بالعموم اور دفاعی اکانومی کو بالخصوص سپورٹ ملتی ہے۔
ہر پڑھا لکھا مسلمان جانتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہونے والے غزوات میں فتوحات کے بعد مال ِ غنیمت غازیوں میں تقسیم کیا جاتا تھا اور شہداء کا حصہ ان کے گھروں میں ورثاء تک پہنچایا جاتا تھا۔ یعنی ملک و ملت اور دین کے لیے اپنی جانیں پیش کرنے والوں کے نان نفقے کے معقول بند و بست کا حکم تو ہمارے دین نے دیا ہے۔ آپ کبھی کسی ریٹائر ہونے کے قریب فوجی افسر کی فیملی سے ملیں وہ آپ کو بتائیں گے کہ کہیں کسی جگہ ملنے والا کوئی پلاٹ یا فلیٹ اب ان کے بچوں اور ماں باپ کی کفالت کا بنیادی سورس ہے۔ زندگی بھر جان ہتھیلی پر رکھ کر ملک کے کونے کونے میں جا کے اور دنیا کے مختلف امن مشنز میں خدمات انجام دنے والے کو اگر ریاست چھوٹا موٹا معاشی تحفظ بھی نہیں دے سکے تو پھر اس کا جانیں فدا کرنے کا جذبہ بھی اتنا ہی رہ جائیگا جتنا ریاست کی طرف سے احساس ِ تشکر ہوگا۔
غازیوں اور شہداء کی کفالت کا حکم ہمارا دین بھی دیتا ہے اور دنیا بھر کی عسکری و قومی اخلاقیات بھی۔ عوام اور افواج پاکستان کے درمیان خلیج پیدا کرنے والے بدبختوں کو اس محاذ پر بھی شکست ہوگی اور پھر ابھی تو سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل SIFC کا پورا پروجیکٹ ان پاکستان دشمنوں کے سینوں پر مونگ دلنے کے لیے تیاری پکڑ رہا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ انشاء اللہ پاکستان کی معیشت اس پروجیکٹ کے باعث اپنے پیروں پر کھڑی ہوگی اور دوسرا یہ کہ اس پروجیکٹ کی نگرانی بھی افواج پاکستان ہی کر رہی ہیں۔
٭…٭…٭