ججوں کو لکھے گئے خطوط میں پی ٹی آئی کا ہمدرد گروپ ملوث ہو سکتا ہے ،رانا ثنا اللہ۔ یہ نون لیگ کی شرارت ہے ،شیر افضل مروت
ہائی کورٹس حتی کہ سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی دھمکی آمیز بلکہ مہلک کیمیکل کے حامل خط مل رہے ہیں۔ اب تک یہ خط آٹھ دس ججوں کو مل چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ محکمہ ڈاک نے سکروٹنی کے دوران کئی خط اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے پکڑ لیے۔ کچھ لوگ کہتے تھے محکمہ ڈاک ختم ہو گیا۔ اب کون خط بھیجتا ہے کون وصول کرتا ہے؟ اس کے پاس تو ریڈیو کا لائسنس بنانے کا اختیار بھی نہیں۔ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ خطوں کا انتظار رہتا تھا۔ خط لکھنے کا بھی ایک تجسس ہوا کرتا تھا چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے۔ لکھے جو خط تجھے وہ تیری یاد میں۔۔۔ خط آیا ہے آدھی ملاقات ہو گئی۔۔۔ اس طرح کے بے شمار اشعار اور گانے کہے اور سنے جاتے تھے۔ آج ہر کسی کو خط کھولتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ججوں کو دھمکانے کے لیے یا جس مقاصد کے لیے بھی خط لکھے گئے ہیں۔ اس پر سیاست دانوں کی طرف سے سیاست کی جانے لگی ہے۔ جب تک مجرم کے گریبان تک ہاتھ نہیں پہنچ جاتا نہیں کہا جا سکتا کہ خط کون لکھتا رہا ہے۔ تاہم اندازہ تو کیا جا سکتا ہے وہ اس طرح کہ ایک گاؤں میں چوری ہو گئی۔ پولیس آئی لوگ اپنے اپنے شکوک کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک بوڑھی خاتون نے بڑی رازداری کہا کہ میں بتاتی ہوں یہ کس کا کام ہے۔ یہ سن کر سارے لوگ ہمہ تن گوش ہو گئے کہ مائی چور پکڑوانے لگی ہے۔ وہ تھانے دار کے کان میں کاناپھوسی کرتے ہوئے کہنے لگی، یہ کسی چور کا کام ہے۔ آج کے خط بھی کسی وارداتیے کا کام ہے۔ یہ وارداتیا خط پوسٹ کرتے ہی پکڑا جاتا مگر سی سی ٹی وی کیمرے سوئے ہوئے تھے۔
٭٭٭٭
کے پی کے میں گورنر راج لگ سکتا ہے، امیر مقام
یہ گورنر راج کب لگے گا اور کتنے عرصے کے لیے لگے گا۔ امیر مقام نے اس بارے میں لب کشائی نہیں فرمائی۔ مرکز اور صوبوں میں حکومتیں بنے جمعہ جمعہ 8 دن ہوئے ہیں۔ کوئی نئے انتخابات کے اعلان کا منتظر ہے اِدھر امیر مقام نے گورنر راج کی نوید سنا دی ہے۔ یہ ان کی خواہش ہے، انفارمیشن ہے یا پھر تجزیہ ہے؟ انھوں نے جوازاً کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ گنڈا پور اور سپیکر حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ وہ جس قسم کی حلف عدولی کر رہے ہیں، توہین عدالت کے ایک نوٹس کی مار ہیں۔ یہ گورنر راج درمیان میں کہاں سے ٹپک پڑا؟ امیر مقام نے بہرحال یہ نہیں کہا کہ گورنر راج لگا کر انھیں گورنر بنا دیا جائے۔ کے پی کا گورنر تبدیل کیا جاتا ہے تو مولانا فضل الرحمن جو پہلے ہی ناراض ہیں آگ بگولہ نہ ہوں گے تو کیوں نہ ہوں گے۔ مولاناکے سوا نیزے پر آئے اشتعال کا حکمران طبقہ متحمل نہیں ہو سکتا۔ امیر مقام جنرل مشرف کے پسٹل بدل بھائی تھے۔ میاں صاحب کے شاید اچکن بدل برادر ہیں۔ نون لیگ میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ گورنر راج کی سوچ نہ جانے کہاں سے ان کے اعلیٰ اور ’بڑے‘ دماغ میں آ گئی اور سما گئی۔ بھٹو صاحب نے بلوچستان اور سرحد( موجودہ کے پی) میں پچاس 55 سال قبل گورنر راج لگایا تھا جس کی آج بھی تلخ یادیں کہیں نہ کہیں رینگ رہی ہیں۔ ایک گورنر راج صدر آصف علی زرداری نے گورنر سلمان تاثیر کے توسط سے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ایڈوائز پر پنجاب میں محمد شہباز شریف کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا کر فروری 2009ء میں دو ماہ کے لیے لگایا تھا۔ایک مقصد نون لیگ کی جگہ پیپلز پارٹی کی حکومت بنانا تھا۔ پوری کوشش کے باوجود صرف ایک ایم پی اے لیلیٰ مقدس نون لیگ سے ٹوٹ کر پیپلز پارٹی کی حمایت پر تیار ہوئی تھیں۔یہ اس دور کی تلخ یادیں تھیں جو آج کہیں اسی طرح تلخ ہیں اور کہیں شیریں ہو کر کسی آنگن میں رقص کناں ہیں۔
٭٭٭٭
لال سہانرا نیشنل پارک میں نایاب درختوں کی کٹائی پر کارروائی، 11 افسروں کا تبادلہ
نایاب درختوں کی کٹائی میں ملوث افسروں کو ان کا تبادلہ کرکیسزا دی گئی ہے یا انعام دیا گیا ہے؟ کیا ان کا تبادلہ ان علاقوں میں کر دیا گیا ہے جہاں لال سہانرا سے بھی زیادہ نایاب قیمتی اور نادر درخت موجود ہیں۔ ایسے لوگوں کے سر پر برطرفی کا بورا رکھ کر گھر بھجوانا چاہیے تھا۔ جس اتھارٹی نے نوازش کی وہاں جا کر دیکھا جائے ان کے گھروں کے دروازے کھڑکیاں فرنیچر کس نادر لکڑی سے بنے ہیں۔ ایسے معاملات میں لچک نہیں سخت پالیسی اور زیرو ٹالرنس کی ضرورت ہے۔ لال سہانرا نیشنل پارک کا محل وقوع عظیم الشان ہے۔ ایک طرف بڑی نہر میں ٹھاٹھیں مارتا پانی بہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگل کا سلسلہ ہے۔ اس جنگل میں وسیع رقبے پر لگے جنگلے ہیں حالیہ برسوں تک شیر رکھے گئے تھے۔ اب نیل گائیاں موجود ہیں۔ اس جنگل سے متصل صحرائے چولستان ہے۔ ایسے ہی نامراد ’لکڑ فروشوں‘ کی طرح متعلقہ محکمے کے افسروں نے مافیاز کے ساتھ مل کر صحرا سے ایک ایک ہرن پکڑ کر ہوٹلوں اور بڑے لوگوں کو شادیوں پرسپلائی کر دیا۔ چنکارا اور کالے ہرن کی نسل ناپید ہو گئی۔ ایوب دور میں امریکہ کو کالے ہرنوں کے جوڑے تحفے میں دیے گئے تھے۔ امریکا سے درخواست کر کے کچھ جوڑے منگوائے گئے۔ اب کالا ہرن اور چنکارا خاطر خواہ تعداد میں چولستان میں پائے جاتے ہیں۔ نادر و نایاب درختوں کے خاتمے کے بجائے ان کی بقا کے اقدامات کی ضرورت ہے جو سفارشی افسروں کے تبادلوں سے ممکن نہیں۔
٭٭٭٭
مودی حکومت نے دلی کی تاریخی عید گاہ مہرولی میں نماز عید کی ادائیگی پر پابندی عائد کر دی
گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کر لیتا ہے۔ مودی صاحب نہ گیدڑ ہیں نہ ہی انھوں نے شہر کا رخ کیا ہے تاہم ان کو مئی میں ہونے والے الیکشن میں شکست نظر آ رہی ہے مگر وہ ہر صورت جیتنا چاہتے ہیں۔ پہلے وہ لگاتار الیکشن فالس فلیگ آپریشن کے زور پر جیتے۔ اب بھی کچھ ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں۔ چائے فروشی سے وہ سیاست فروشی تک پہنچے۔ چائے فروخت کرتے کتنے سیدھے اور سادہ دِکھتے ہوں گے۔ چائے فروش کے بھیس میں ان کی سفاکیت چھپی رہی جیسے ہی وزیر اعلیٰ گجرات بنے مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانے لگے۔ اس کے بعد سے اب تک مودی کی سفاکانہ ذہنیت دوچند ہوتی چلی آ رہی ہے۔ مہرولی عید گاہ میں مسلمان ہر سال عید کی رسمی اجازت لیتے اور نماز عید ادا کرتے ہیں۔ مودی سرکار نے اب اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ بھی فالس فلیگ آپریشن کے ضمن میں آتا ہے۔ پلوامہ ڈرامہ بھی فالس فلیگ آپریشن تھا جو بے نقاب ہو گیا مگر شدت پسند ہندوؤں کے دماغ پر مسلمان دشمنی سوار تھی۔ مودی کو پھر ووٹ دیدیا ایسے کوڑھ مغز واقع ہوئے ہیں کہ ابھی نندن کو ہیرو مانتے ہیں۔ کجریوال کی گرفتاری رام مندر کی تعمیر و افتتاح بھی فالس فلیگ آپریشن ہی ہے۔ بالی وڈ کو بھی مودی نے فالس فلیگ آپریشن کے لیے استعمال کیا۔ اس سال انڈیا میں ہندو قوم پرست پالیسیوں اور نظریے کی تشہیر کرنے والی ایک درجن سے زائد فلمیں ریلیز ہو چکی ہیں۔ ایسے آپریشنز سے مودی مئی کے انتخابات تیسری بار جیتنا چاہتے ہیں۔
٭٭٭٭