بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
رمضان کریم رخصت ہونے کو ہے۔ ماہ صیام سے منسوب برکتوں' نعمتوں سیادتوںاور سعادتوں نے ہر فرد' ہر گھر اور ہر خاندان کو اپنے سحر میں لیا ہوا ہے پورے سماج پر نیکیوں کی ردا تنی ہوئی ہے۔ مسجدیں آباد اور پررونق ہیں، ماہ مقدس کے آخری عشرے میں معتکفین کے اعتکاف سے زندگی کو ایک نیا رنگ اور نیا قرینہ مل گیا۔ پورے رمضان میں دن اور رات کے مابین فاصلے کم ہوتے گئے۔ دن کی اپنی شان جبکہ رات کے نظارے اور سرور اپنی جگہ… اعتکاف میں بیٹھنے والوں کی اکثریت نوجوان نسل کی ہے نوجوانوں میں دینی رحجان دیکھ کر دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا ہے، اللہ پاک ان جذبوں کو اسی طرح قائم ودائم رکھے آمین۔ یہ درست ہے کہ نماز تراویح کے بعد مساجد میںذکرواذکار نوافل اور تلاوت کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں اور پھر دعاوں کا سلسلہ سحری سے قبل تک جاری رہتا ہے۔ تہجد کے ماحول اور اجر کی کیا بات ہے!! بندگان خدا ان یادگار اور قیمتی لمحات میں خالق ومالک سے باتیںکرتے ہیں ، رب کائنات کی جناب میں نگارشات پیش کرتے ہیں بلکہ ان کی منظوری بھی لیتے ہیں''خدا بندے سے خود پوچھے بتا تری رضا کیا ہے''
امیر المومنین حضر ت علی فرماتے ہیں کہ تہجد میں مانگی جانے والی دعائیں بہت پراثر ہوتی ہیں، یہ دعائیں تقدیر میں ترامیم میں کرواسکتی ہیں۔ ہمیں خود کو اور بچوں کو دعائیں مانگنے والا بنانا چاہیے، رب کے حضور ہاتھ بلند ہوں تو پرورگادر کو انسان کی اس ادا پر بہت پیار آتا ہے۔ رسول کریمؐ کا فرمان مبارک ہے ''دعا عبادت کا مغز ہے اور مومن کا ہتھیار ہے'' اللہ پاک سب کی دعاوں کو قبولیت کا شرف دے۔ ہم والدین' اساتذہ کرام اور علماء ومشائخ عظام سے درخواست گزار ہیں کہ وہ رمضان کی پاکیزہ ساعتوں سے مرقع ماحول کو دوام دیں۔ نیکی ،ہمدردی اور دعاوں کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھیں! فصیح سہروردی کے والد ( نعت گو) مرحوم ریاض سہروردی یاد آگئے
رحمت برس رہی ہے محمدؐ کے شہر میں
ہر شے میں تازگی ہے محمدؐ کے شہر میں
ماہ صیام کی دلرباء اور روح افزا گھڑیوں میں جو رونقیں مکہ شریف اورمدینہ منورہ میں ہیں اس کی مثال پوری کائنات میں تلاش کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ رمضان کریم کے پہلے اوعر دوسرے عشرے میں ڈیڑھ کروڑفرزندان توحید ورسالتؐ نے عمرہ کی عدیم المثال سعادت پائی۔ اہل عشق کی مسلسل اور بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر سعودی حکومت کو زائرین کے لیے ''رمضان پالیسی'' بنانا پڑی۔وزارت حج کے ترجمان کے مطابق ماہ صیا م کے دوران صرف ایک بار عمرہ ادا کیا جاسکے گا ،یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ دوسرے زائرین کو موقع مل سکے۔ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی علیحدہ اور منفرد شان ہے ،تاہم رمضان کریم میں کی رونقوں کا کوئی جواب نہیں۔ دونوں مقامات ہر وقت انوار وتجلیات کا مظہر دکھائی دیتے ہیں۔ ہر دو مقامات پر رحمتوں کے ساتھ فرشتوں کا نزول بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ مسجد نبویؐ اور حرم شریف میں صبح وشام آزاد کشمیر ' فلسطین اور پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کی دعائیں کی جارہی ہیں۔ اہل عقیدت کی دعاوں میں امت مسلمہ کی مضبوطی اور استحکام کو بھی خاص مقام حاصل ہے۔حجاج مقدس کی کشش پورے عالم اسلام میںسب سے زیادہ ہے۔ دنیا بھر سے مسلمان مکہ مدینہ کی حاضری کو زندگی کا سب سے بڑا مقصد اور سب سے بڑی خواہش سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کے دل میں حاضری کی آرزو بچپن سے مچلتی ہے اور مکہ مدینہ آکر یہاں دفن ہونا سب کی آخری خواہش ہوتی ہے۔ اللہ کریم سب مسلمانوں کو بڑے دربار کی حاضری نصیب فرمائے اور سب کی مرادوں کو شرف قبولیت بخشے۔صبیح الدین رحمانی نے درست کہا!!
کعبے کی رونق کعبہ کا منظر ' اللہ اکبر اللہ اکبر
کعبے کے اوپر سے جاتے نہیں ہیں
کس کو ادب یہ سکھاتے نہیں ہیں
کتنے مودب ہیں یہ کبوتر اللہ اکبر ' اللہ اکبر
اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی رمضان کی نعمتوں کا صدقہ ہے 1947ء میں رمضان المبارک کی 27 ویں شب کو اللہ کریم نے برصغیر کے مظلوم اور مجبور مسلمانوں کو آٰزاد وطن کا تحفہ دیا۔یادش بخیر… 23 مارچ 1940ء کو قرارداد لاہور کی منظوری کے روح پرور مناظر میں حضرت قائداعظم نے واضع کر دیا تھا کہ آزاد وطن مسلمانوں کے لیے ایسی تجربہ گار ہے جہاں سب کو برابری اور مساوات کے ترازو میں تولا جائے گا کوئی ادنی' اعلی اور حسب نسب کے اعزاز کا حامل نہیں ہوگا، ہم سب نے پاکستان کی ترقی' استحکام اور خوشحالی کے لیے سرگرم رہنا ہے
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
افسوس 77 برس گزر جانے اور بانی پاکستان کی جدائی کے بعد تعمیر وترقی اور خوشحالی کا یہ خواب ہنوز تشنہ تعبیر ہے۔ 20 مارچ 2024ء کو حکومتی اتحاد کی خوشی دیدنی تھی ،آئی ایم ایف نے سٹاف لیول معاہدے کی تیسری قسط جاری ہوچکی۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر قرض پروگرام کی تیسری قسط( ایک ارب 10 کروڑ ڈالر) ملے گی۔حیرت ہے کہ ہم مشروط قرضے کی وصولی پر شادیانے بجا تے رہے ،اسی قرضے کے بدلے بجلی اور گیس مہنگی ہوچکی ہے وہ ملک جہاں 25 کروڑ افراد میں سے نصف تعداد کو دو قت کی روٹی میسر نہیں جہاں ایک کروڑ گریجویٹ روزگار کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں جہاں 3 کروڑ نوجوان اپنے مستقبل سے پریشان ہیں اور جہاں پونے تین کروڑ بچے سکول ایجوکیشن سے محروم ہیں وہاں بجلی' گیس اور ضروریات زندگی کو مہنگا کر کے جو نتائج برآمد ہوں گی اس کا انداز آج غریب خاندانوں میں دیکھا جارہا ہے غربت اور مہنگائی غریبوں کو نگل رہی ہے، سفید پوشی کا بھرم ٹوٹ چکا ہے۔ پاکستان اندرون اور بیرون ملک قرضوں کے پہاڑ تلے دبا ہوا ہے ان قرضوں کی مجموعی مالیت 130 ارب ڈالر بتائی جارہی ، دوسری طرف فروری 2024 میں افراط زر مہنگائی کی شرح 23.1 فیصد تک پہنچی جو بلند ترین شرح تصور کی جارہی ہے۔صنعتوں کی نج کاری کامسئلہ جون کا توں ہے ریاست کی ملکیت 85 اداروں میں سے اکثر کئی سال سے خسارے کی بلند پرواز پر ہیں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا ادارہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی ہے جس کا سالانہ نقصان 170 ارب روپے ہیں۔ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں (10 ڈسکوز ) ہر برس قومی خزانے سے 450 ارب روپے کے اخراجات لئے ہوئے ہیں۔ پی آئی اے' پاکستان سٹیل ملز اور پاکستان ریلوے جیسے ادارے حکومت اور قوم پر بوجھ ہیں۔پنشن کا حجم قومی محصولات کے سر پر ہتھوڑا ہے۔ وفاقی سطح پر سول ملٹری پنشن 800 ارب روپے سے زائد ہے۔ صوبوں میں حجم 1000 ارب روپے ہے۔ گریڈ 17 سے اوپر کے افسران کی پنشن کا حجم نچلے عملے کی پنشن کا 5 سے 6 گنا ہے۔ ٹیکس میں چھوٹ اور مفت پیٹرول اور بجلی آتی ہے۔ 220 ارب روپے مالیت کے ہزاروں لیٹر مفت پیٹرول والی 90 ہزار سے زائد لگڑری گاڑیاں دفتری اوقات میں نہیں بلکہ 24 گھنٹے بیوروکریسی کے اختیار میں ہیں۔ سول اور عدالتی بیوروکریسی 550 ارب روپے کی مفت بجلی کے مزے لے رہی ہے۔افطار اور سحرکے دستر خوانوں پر اداس چہروں کو تعداد بڑھ رہی ہے تاہم اپنے ملک کو کہاں لے کر جارہے ہیں ؟یہ وہ پاکستان ہے جس کا خواب 23 مارچ میں دیکھا اور جس کی تعبیر 26 رمضان کو ملی۔1974ء سے آئی ایم ایف پروگرام سے منسلک ہو کر قرضہ لینے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج تک طمطراق سے جاری ہے ہم قرضہ لئے جارہے ہیں اس کی واپسی کون کرے گا اور کس طرح ہوگی ؟اس بارے میں حکمران جماعت' پارلیمنٹ اور سیاست دان خاموش ہیں یہ بھی یاد رہے ہمارا قومی بجٹ پچاس ارب ڈالر پر مشتمل ہے جس میں سترہ ارب ڈالر اشرافیہ کی سہولتوں پر خرچ ہوتا ہے کیا ایسے غریب ملک کو قرضہ در قرضہ پالیسی سے چلایا جاسکتا ہے؟