آ تینوں سیر کراواں !


پیرس کی ڈائری
محمود بھٹی 
موسم بہار کا کیا کہنا ، جیسے ہی بہار کا لفظ دماغ سے ٹکراتا ہے پھولوں بھری رنگ برنگ کیاریوں کا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے ، خوشبوئوں سے دماغ معطر سا ہوجاتا ہے،اس موسم میں اسلام آباد کی فضا تو اتنی نشیلی ہوجاتی ہے کہ وہاں نیند آورگولیوں کی طلب تقریباً ختم ہوجاتی ہے، ہر کوئی قدرتی طور پر ہی جھومتا پھرتا  نظر آتا ہے، ہر منفی علامت بھی مثبت نظر آتی ہے، ایک دن تو حد ہی ہوگئی کہ اسلام آباد میں موجود کیفیت سرور میں مبتلا سرحدی نوجوان نے لنگور کو حور مان کر جپھی ڈال لی، کیف کی اس فضا سے متاثر ہوکر آج میں نے بھی سفید سچ بیان کرنیکا فیصلہ کیا ہے، کیوں نہ آج چمک کے گرویدہ ثاقب نثار کے اوصاف حمیدہ  کے ذکر سے گفتگو شروع کر یں، بہت سے لوگ خوامخواہ ہی ثاقب نثار صاحب سے حسد کرتے ہیں، کچھ سادہ لوح عوام کو تو انکے اصل ٹیلنٹ کا  پتہ ہی نہیں ہے ، ثاقب نثار تو بہت ہی شاندار سپنر بھی تھے،وہ کیرم بال اتنی اچھی کرتے تھے کہ مخالف ہکا بکا رہ جاتا تھا لیکن انھوں نے اس صلاحیت پر کبھی غرور نہیں کیا البتہ انھوں نے اس صلاحیت  کا استعمال شعبہ قانون میں بہت اچھے طریقے سے کیا، اگروہ شعبہ قانون میں نہ ہوتے اور انھیں موقع ملتا تو  وہ عبد القادر سے لیکر ثقلین مشتاق تک سب کے ریکارڈ توڑ ڈالتے، کیرم بال  کے ٹیلنٹ کا مظاہرہ انھوں نے اس روز سر عام کیا جب ماتحت عدالت میں جاکر ایک جج کا موبائیل گھما کر اچھالا، اس لمحے ایک طرف جج صاحب  حیران رہ گئے دوسری طرف حاسدوں کے سات کپڑوں میں آگ لگ گئی، لوگ جانتے ہی نہیں کہ ثاقب نثار اس قدر وسیع القلب تھے کہ دل کے دروازے اشرافیہ اور امراء کیلئے ٹوینٹی فور سیون کھلے رکھتے تھے،اس عادت پر وہ اتنے مستحکم تھے کہ جیسے ہی اشرافیہ کے سائل کی واٹس ایپ فریاد موصول ہوتی تو اسی لمحے دفتر ہو سڑک ہو یا پھر بیڈ روم  فوری انصاف دینے کی کارروائی شروع کر دیتے، ڈنگ ٹپائو انصاف فراہم کرنے میں تو انکا کوئی ثانی ہی نہیں تھا، خوش کروا کر خوش رہنے میں بھرپور یقین اور مہارت رکھتے تھے، وہ اتنے سوشل اور نرم دل تھے کہ  اگر کوئی سائل پہنچ نہ سکتا  تو وہ بقلم خود اسکے پاس بمعہ گروہ پہنچ جاتے تھے اور پوچھتے کیا مدد کروں کیسے کروں اور کتنی مدد کروں، ایک گڈ فرائیڈے عالم کیف و سرور  میں پنجاب کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ میں پہنچ گئے لیکن افسوس ڈاکٹر سعید اور دیگر ان برا مناگئے اور سوشل میڈیا سمیت مین سٹریم میڈیا پر چھاپے کا شور مچ گیا کہ ثاقب نثار نے اپنے بھائی کے کہنے پر چھاپہ مارا،  مجھے یاد ہے کہ ثاقب نثار اپنے  جتھے کے ہمراہ میرے ڈیفنس ہسپتال کسی مریض کی تیمار داری کرنے آے تھے، اس دوران کسی بدخواہ نے چغلی لگا کر انکا بلڈ پریش ہائی کردیا، انھوں نے کسی مریض کی فیس کم کرنیکی سفارش تو بالکل بھی نہیں کی تھی لیکن کسی دل جلے نے اس دورے کو  بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے وائرل کردیا ، ثاقب نثار ہمیشہ بڑے اور اہم کیسوں کو اپنی دسترس میں موجودگی کو یقینی بناتے تھے، رائل پام کلب واپسی کیس ہو یا کوئی اور بڑا کیس، ڈیم فنڈز کا معاملہ ہو یا ٹائون کے جگری دوست کا کیس ،ثاقب اپنے یاروں ہر  پر نثار نثار ہوجاتے، وہ اس امر کو یقینی بناتے کہ ایسے چمکدار کیس کسی دوسرے کے پاس مقرر نہ ہونے پائیں، وہ مخصوص کیسوں کو مکمل نگرانی کرکے خوشی خوشی  پایہ تکمیل تک پہنچاتے تھے،ثاقب نثار تو مبینہ طور پر اتنے قابل آدمی تھے کہ جب تک اپنے عہدے پر رہے مجال ہے کہ ایک بھی بڑے کیس کا فیصلہ ذاتی میرٹ سے ہٹ کر کیا ہو،
چھ ججوں نیایک خط لکھ کر  جنکے بارے میں ہلچل مچائی ہوئی ہے عظیم ثاقب نثار بقلم خود اس امر کو یقینی بناتے تھے کہ انھیں یا  ان کے کسی معمولی سے  نمائندے کو ناراض یا غیر مطمئن نہ کریں،ثاقب نثار میں خصوصیات تو اتنی تھیں کہ جتنا بھی ذکر کریں کم ہی ہوگا انہی خصوصیات کی وجہ سے عمرانی حکومت نے ثاقب نثار کو ریٹائرمنٹ کے بعد انکی ہی سفارشات پر خصوصی مراعات دینے کیلئے صدارتی ا?رڈیننس جاری کر ڈالا تھا ، جس سے پتہ چلا کہ تمام بہاریں نثار پر نثار کردی گئیں،جس ملک میں مزدور کی تنخواہ 32 ہزار روپے ہے جہاں گھر کی گیس گا بل  دس  ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے آرہا  ہے وہاں  ثاقب نثار کو ہرماہ صرف 10 لاکھ روپے ماہانہ پنشن دی جارہی ہے، 3 ہزار مفت لوکل کالیں کرنیکی اجازت تو یوں دی گئی جیسے انھوں نے پی سی او کھولنا ہو ، بجلی کے2  ہزار یونٹ ،25 ہیکٹو میٹر یونٹ گیس ،تین سو لٹر پٹرول اور مفت پانی تو یوں مل رہا ہے جیسے انھوں نے کوئی عالمی ریکارڈ بنایا ہو، وہ تو اتنا لاڈلے ثابت ہوئے کہ کم قیمت پر سرکاری گاڑی خریدنے، ڈرائیور ، اردلی اور 24 گھنٹے سیکورٹی گارڈ جیسی بے مثال سہولتیں ابھی تک فراہم کی جارہی ہیں، 
ناقدین کو کیا پتہ کہ نثار گلزار کھوسہ اور بندیال جیسی مورتوں کے فیصلوں کی وجہ سے دنیا بھر میں ہماری عدالتوں کو آسٹریلیا کے خوبصورت قومی جانور سے تشبیہہ دی جارہی ہے، حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ہمارا یہ مقدس ادارہ 139 ممالک میں  نیچے سے بارہویں نمبر پر کھڑا عارف لوہار کا گانا آتینوں سیر کراواں گنگنائے جارہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن