قومی اعزازت کی تقسیم ’’خوگرحمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے ‘‘


زاویے… میاں محمود
Myan.Mehmood @gmail.com


پوچھا گیا کہ سرکاری اعزازات کی تقیسم کرنے کا عمل کیسا رہا؟ سیدھا سادھا جواب دیا گیا کہ جب ملک پر اندرون وبیرون ملک کے مجموعی قرضہ 130 ارب ڈالر کا بوجھ ہو‘ جہاں 24 میں ساڑھے بارہ کروڑ افراد کو دو وقت کی روٹی کے لیے جان کے لالے پڑے ہوں اور جہاں بے روزگاری اور مہنگائی کی بلند ترین شرح جرائم میں مسلسل بڑھوتی کا باعث ہو وہاں سرکاری تقریبات میں جاہ و حشمت کے ساتھ سول ایوارڈ کی تقسیم سے خوشی اور طمانیت کی دولت میسر نہیں آتی۔ ہمارے یہاں’’ زرخیر دماغوں‘‘ کی وجہ سے سال کے آغاز میں گندم بحران کے جواز پر گندم امپورٹ کی جاتی ہے اور پھر اسی برس کے اختتام سے قبل قوم کوگندم ایکسپورٹ کرنے کی خوشخبری سنا دی جاتی ہے۔ ہم زرعی میدان میں کوئی ایک ایسا محقق سامنے نہیں لاسکے جس کی ریسرچ سے بحران در بحران سے نجات پائی جاسکے۔ توانائی‘ زراعت‘ صنعت‘ ٹکیسٹائل ‘ تعلیم‘ صحت ‘ شوبز اور سپورٹس سمیت بیشتر شعبہ ہائے زندگی ترقی معکوس کا شکار ہیں۔ دوسری طرف ہم ان ہی شعبوں کی مقتدر شخصیات کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر سول ایوارڈ سے سرفراز کرتے ہیں۔ 24 کروڑ باشندوں کے اس خوبصورت ملک میں اس بار مختلف شعبوں کی 397 شخصیات کو تمغہ امتیاز‘ ستارہ امتیاز اور صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ ایوارڈ لینے والوں سے سوال تو نہیں کیا جاسکتا تاہم سرکار سے قوم پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ جن 397 افراد کو قومی اعزاز کے لیے منتخب کیا گیا انہوں نے اپنے شعبے میں کون کون سے ایسے کارنامے انجام دئیے ہیں جس نے ملک کی تقدیر بدل دی ہو یا قومی خوشحالی کا چراغ روشن ہوئے ہوں!
وطن عزیز میں کوئی ایک ایسا مثالی شعبہ موجود نہیں جس کی توصیف وستائش کرکے ہم دنیا اور مہذب ممالک کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالیں۔ ذرا پڑوسی ملک کی طرف نظر دوڑائیں ! گزشتہ برس ایک ارب چالیس کروڑ آبادی کے حامل بھارت میں صرف 132 افراد کو قومی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ اگر ہم صرف انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ لیں تو جان کر حیرت ہوگی کہ بھارت نے آئی ٹی میدان میں 2022-23ء کے دوران 4.3 ٹریلین زرمبادلہ حاصل کیا، زرعی میدان میں بھارت نے 304 بلن ڈالرز کی کمرشل سروسز سے حیران کن زرمبادلہ کے حصول کو ممکن بنایا!
ایک اور پہلو دیکھیں… ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق وطن عزیز کی جامعات تقریباً 4.185 پی ایچ ڈی سالانہ متعارف کروا رہی ہیں سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں سامنے آنے والے سکالر اور محقق قوم کی خدمت کس طرح کررہے ہیں؟ کیا ان کی سرگرمیوں سے معاشی صورت حال بہتر بنانے میں مدد ملی؟ یہ سکالر جو نئی تحقیق کی شمع روشن کرتے رہے ان کی تحقیقات پر کس حد تک عمل ہوا؟ سعودی عرب نے ریگستان میں گندم بونے کا کامیاب تجربہ کرکے خود کو گندم پیدا کرنے اور پھر ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کروالیا۔ چین میں پلازوں میں سبزیاں اور پھل کاشت ہورہے ہیں ،صرف کاشت ہی نہیں بلکہ ایکسپورٹ ہورہے ہیں جبکہ ہمارے یہاں بنجر زمین جوں کی توں پڑی ہیں اور زرعی زمین ہاؤسنگ مافیاء  کی نظروں میں ہے !
یادش بخیر … 1964 میں وجودی فلسفی ڑاں پال سارتر کو نوبل انعام دینے کا اعلان کیا گیا لیکن انھوں نے ویت نام جنگ میں مغرب کی پالیسیوں سے اختلاف کی بنا پر یہ ایوارڈ اور ملنے والی خطیر رقم لینے سے انکار کردیاتھا۔2017 میں محمدسلیم الرحمان نے تمغہ حسن کارکردگی کو رد کردیا تھا۔ ممکن ہے۔ ہم نے ’’پاکستان رائٹرز گلڈ‘‘ کے قیام کی ہوش ربا داستانیں پڑھ رکھی ہیں۔ یہ سرکاری ایوارڈز اچھے ہوتے ہیں یا برے نہیں، اس پر بحث نہیںالبتہ ان کے حصول سے ضروری نہیں کہ کسی کی قدروقیمت بڑھ جائے۔اگر پچاس فی صد لوگوں کو بھی جائز ایوارڈ مل جائے تو بڑی حد تک ان کی محرومیوں کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ یوم پاکستان کے موقع پر ایوان صدر اور چاروں صوبوں کے گورنرہا سز میں ان ایوارڈز کی تقسیم کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔حکومتی سطح پردئیے جانے والے ان ایوارڈ ز کو درجہ بدرجہ نشان ِپاکستان،تمغہ حسن کارکردگی، ستارہ امتیازاور تمغہ امتیازکا نام دیاجاتا ہے۔یہ عمدہ روایت کا تسلسل ہے۔ اربابِ علم و فن کو نوازنے کی یہ پالیسی ستائش کے لائق ہے، البتہ اسے بڑی حدتک شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔قرآن مجیدمیں ارشاد خداوندی ہے کہ ’’اے ایمان والو! جب کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو کہ کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو،پھراپنے کیے پر شرمندہ نہ ہونا پڑے‘‘ 23مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر دیے گئے ایوارڈز کو مختلف حلقوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ سوشل میڈیا پر سب سے پہلے افواہ اڑائی گئی کہ اس سال ایوارڈز کے حق دار دیے جانے والے لوگوں کی فہرست میں کوئی ڈاکٹر،کوئی انجینئر،کوئی سائنس دان یا تاریخ دان شامل نہیں۔اس سال بہت سے اہل لوگوں کو ایوارڈ سے نوازا گیالیکن ابھی اس شعبے میں مزید شفافیت کی ضرورت ہے۔دوسری صورت میں لوگ پوچھنے کے مجاز ہیں کہ مجیدامجد اور ن م راشد جیسے عہدساز شاعرتو مرنے کے چالیس پچاس سال بعد ایوارڈ کے حق دار ٹھہریں اور نوآموزوں کو جن کی عمریں بھی چالیس پچاس سال سے کم ہیں،ذاتی پسند ناپسند پریہ تکریم دی جائے۔اس سے حکومتوں اور ان کے ایوارڈز کا وقار خراب ہوتا ہے۔ہمارا وطن پاکستان کوئی بازیچہ اطفال نہیں،لاکھوں شہدا کی قربانیوں سے حاصل کی گئی اس جنت ارضی کی ایک اہمیت ہے،اس کے منسلک تمام روایتوں کی ایک قدروقیمت ہے،اس کے وقار کو قائم رکھنا حکومتی اداروں کا فرض ہے۔
گفتگو ایوارڈ اور ان کی تقسیم سے شروع ہوئی تھی خدارا نوازنے اور مزید نوازنے کے سلسلہ موقوف کریں ہم اس قائداعظم محمد علی جناح کے پیروکار ہیں جنہوں نے کام ‘ کام اور کام کا درس دیا، اسی فلسفلے کی بدولت فرد‘ سماج اور قوم نے ترقی کرنا ہوتی ہے۔ لنگر‘ انکم سپورٹ پروگرامز اور ایوارڈز بانٹنے سے ترقی نہیں ہوتی ہے نہ قوم مضبوط بنتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن