(نسیم الحق زاہدی)
غزہ میں جو کچھ ہوا دنیا نے اس سے بڑا ظلم نہیں دیکھااور نہ ہی ایمان کی بھی ایسی انتہا نہیں دیکھی ہوگی جس نے دنیا کی تاریخ کو لہو لہان کر دیا ہے۔ غزہ، جہاں لاشوں، خون، بموں کے دھویں اور آگ کے درمیان تباہی، اور تباہ شدہ عمارتوں کے بیچ مظلوم مسلمان فاقہ کشی سے دم توڑ رہے ہیں،موت پچھلے 7 ماہ سے مظلوم فلسطینیوں کے تعاقب میں ہے،ایسا لگتا ہے کہ ایک بے حس دنیا غزہ کو بھول گئی ہے،54 اسلامی ملکوں کی فوج کہاں ہے؟۔یاد رہے کہ 7 اکتوبر2023 ء سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 32 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 75 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد مظلوم خواتین اور بچوں کی ہے جو اقوام عالم کی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئے،اسرائیلی غزہ پر جاری وحشیانہ بمباری سے ہر گھنٹے میں 6 بچے اور 5 خواتین شہید ہو رہی ہیں۔ جب کہ حماس کے 7 اکتوبر کے حملہ میں اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد 1,139 ہے۔ غزہ کی 75فیصد سے زیادہ عمارتیں مسمار کی جاچکی ہیں، لاتعداد افراد ملبے میں دبے ہوئے ہیں،زیادہ تر اسپتال مسمار کئے جاچکے ہیں۔ نہ ادویات ہیں، نہ طبی آلات ہیں، نہ غذا ہے، نہ پانی ہے۔ بے سہارا فلسطینی علاج نہ ہونے سے اوربھوک کے سبب مررہے ہیں۔ معصوم بچے اسرائیلی فوج کی بمباری میں اپنے ماں باپ کی بانہوں میں دم توڑ رہے ہیں۔ دنیا میں بچوں کی آمد کا انتظار کرنے والی فلسطینی مائیں غذائی قلت کا شکار ہیں۔ فلسطینی جانوروں کا چارہ اور گھاس کھا کر زندگی گزارنے کے لیے مجبور ہو چکے ہیں۔فلسطینی وزارت تعلیم نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے اب تک 6050 طلباء شہید اور 10219 زخمی ہوئے ہیں۔ 264 اساتذہ اور منتظمین شہید اور 960 زخمی ہوئے۔ اسرائیل اب تک غزہ پر 30 ہزار ٹن بارودی مواد برسا چکا ہے اور اس بمباری سے شہر کی85 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔مذکورہ ہو لناک اعداد و شمار نے د ہلا کر رکھ دیا ہے، بار بار یہ خیال آرہا ہے کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کیاہی کیوں؟ جب ان کے پاس اسرائیلی حملہ روکنے کی طاقت نہیں ہے، جب کہ کوئی عرب یا مسلم ملک جنگ میں دفاعی سطح پر ساتھ دینے کو تیار نہیں ہے۔ بے قصور غیرمسلح فلسطینی شہریوں، عورتوں اوربچوں کو اس کی قیمت چکانی پڑی ہے جس بر بریت و سفاکیت کی مثال نہیں ملتی۔ اسرائیل کوئی بڑی فوجی طاقت نہیں ہے، لیکن اگرمشرق وسطیٰ پر نظر ڈالی جائے تو اسرائیل تمام عرب ممالک کے سامنے ایک بہت بڑی فوجی قوت ہے، اس کی ایک وجہ امریکہ سے ملنے والی فوجی امداد بھی ہے۔کیونکہ صہیونی معیشت کا پہیہ امریکی امداد سے ہی رواں دواں ہے اور آج اسلحہ پیدا کرنے والایہ ایک بڑا ملک بن چکا ہے۔اسرائیل کے ظالمانہ برتاؤ سے متعلق اقوام متحدہ کی سستی وکاہلی اور مغرب کی ہمہ گیر حمایت نے بھی علاقے میں خاص طورپر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کو اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کے سلسلے میں مزید گستاخ بنایا ہوا ہے جو اس وقت بھی ایٹمی ٹیکنالوجی اور ہر قسم کے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں سب سے آگے ہے اور یہ مسلم دنیا کو اپنے دفاع اور توانائی کے حصول کے پرامن مقاصد کے تحت بھی ایٹمی ٹیکنالوجی میں آگے نکلتا برداشت نہیں کر سکتا۔روس یوکرائن تنازع کا بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھاکر لاکھوں یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کا مذموم منصوبہ بنایاگیا جس پر عملدرآمد کیلئے پولینڈ، مالڈووا، رومانیہ اور ہنگری کی سرحد پراستقبالیہ کیمپس بھی قائم کئے گئے،پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کر کے انہیں خصوصی پروازوں سے اسرائیل بھیجاگیا جہاں ان کی دلجوئی کے لئے سوویت یونین ٹوٹنے کے بعدسے یہاں پر مقیم یوکرائنی یہودیوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی وہیں انہیں فوری طور پر امدادی رقم، ملازمتی مواقع، سکیورٹی، شہریت، پاسپورٹ، بچوں کے لئے تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ فلسطینی علاقوں میں حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانی نے انکشاف کیاہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث ہے۔ انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ اس بات کے واضح اشارے ملے ہیں کہ اسرائیل نے نسل کشی کے بین الاقوامی کنونشن کے تحت درج پانچ میں سے تین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیلی فوج غزہ میں مختلف گروپ کے ارکان کو قتل کرنے اورانہیں شدید جسمانی یا ذہنی اذیت پہنچانے میں ملوث ہے۔ سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد منظور ہونے کے باوجود اسرائیل بلا ناغہ بے گناہ پریشان حال غزہ کے فلسطینیوں کا قتل عام کررہاہے۔ اور اسرائیل نے اٹیمی حملے کی دھمکی دی ہے۔اب اس کو جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی برباد کرنے کا مذموم منصوبہ ہے اور یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ عید سے قبل صہیونی درندے مزید لا چار و نہتے فلسطینیوں کے خون سے اپنی پیاس بجھائیں گے۔اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ یہ قتل عام کیسے رکے گا؟اگرامریکہ اورمغربی ممالک، جو اسرائیلی جارحیت میں مددگار بنتے ہیں، دل سے چاہیں تواسرائیل جنگ بندی کیلئے مجبور ہوجائے گا۔ کیونکہ اسرائیلی حکام نے اس بات کا اعتراف کرلیاہے کہ وہ غزہ میں حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے مقصد میں ناکام رہے ہیں۔ اگرسارے مغربی ممالک اورعرب ومسلم ممالک اسرائیل کا مکمل بائیکاٹ کردیں، ان سے تجارتی رشتہ پوری طرح ختم کرلیں، دفاعی تعاون روک دیں،مالی امداد بندکردیں اوراسرائیلی تمام مصنوعات کا استعمال بند کردیں تو وہ گھٹنے ٹیک دے گا۔ اسرائیل نے رفح میں فوجی آپریشن کو منظوری دے دی ہے اوروہاں پر کسی بھی فوجی مہم کا مطلب انسانی تباہی ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کو اس آپریشن کے خلاف خبردار کیا۔ موجودہ وقت میں امریکہ اوراسرائیل کے بیچ تنازعہ کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے۔ اسی پس منظرمیں پہلی بار امریکہ نے فوری جنگ بندی کی سیکورٹی کونسل کی قرارد اد کو ویٹونہیں کیا۔امریکہ نے قرارداد کو ویٹونہیں کیا اورناہی ووٹنگ میں حصہ لیا۔ کیا یہ و اشنگٹن کی کوئی نئی چال تو نہیں ہے؟ یاد رہے کہ اس سے قبل جب اسی طرح کی قرارداد سیکورٹی کونسل میں پیش ہوئی تھی توامریکہ نے ویٹوکردیاتھا۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ جب اسرائیل جنگ بندی سے متعلق کسی قرارداد کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہے تو اس کے سیکورٹی کونسل میں پاس ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتاہے۔ جبکہ غزہ میں فاقہ کشی کے شکار افرادکیلئے کھانا تقسیم کرکے لوٹ رہے عالمی امدادی تنظیم ’’ورلڈ سینٹرل کچن‘‘ کے ایک قافلے کو نشانہ بنا کر اسرائیل نے 7 امدادی کارکنوں کو ہلاک کردیا۔ اس کی اس حرکت پر پوری دنیا چیخ اٹھی ہے۔ اور جنگ بندی کا مطالبہ کررہی ہے۔