خطوط لکھتے رہیں!!


ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ 
takhan_column@hotmail.com 

,,
خطوط لکھتے رہا کریں اس سے پتہ چلتا ہے کہ آس پاس کیا ہو رہا ہے؟ ہم تو خوش ہیں کی ادب خطوط کی شکل میں واپس لوٹ آیا ہے۔ خط لکھنے اور پڑھنے کا شوق پیدا ہوا ہے۔ کاکول میں چیف آف آرمی نے کرکٹرز کیساتھ افطار ڈنر کیا سبھی جانتے ہیں کرکٹ کھیل نہیں ہے ،یہ امریکن ریسلنگ کی طرح انٹرٹیمننٹ ہے۔ کاش جنرل صاحب ہاکی اورفٹبال کے کھلاڑیوں کو بھی بلاتے تاکہ انہیں حوصلہ ملتا۔ یہ تاریخ ہے کہ کرکٹ کے ورلڈکپ جیتے نہیں، جتوائے جاتے ہیں۔ ہیرو بنتے نہیں بنائے جاتے ہیں۔ابھی خطوط کا ذکر ہو رہا ہے۔ لہٰذا افطاری پر وکلا کے نمائندے بلاتے لکھاریوں کو بلاتے ان سے خطوط کے بارے میں صلح مشورہ کرتے توکسی نتیجہ پر پہنچ جاتے،کرکٹ میں صرف محسن نقوی کو ہی بلا لیتے اور پوچھتے یہ آپ پر کس نے پہ تین قومی سطح کی ذمہ داریاں سونپ رکھی ہیں۔ ان سے آپ انصاف کیسے کر رہے ہو ؟ دوسری طرف قوم کو انصاف دینے والے ججز آج خود انصاف کی تلاش میں ہیں۔ہم تو سنتے آئیں تھے کہ دنیا میں سب سے طاقتورججز ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے یہ ججز تو محبوب اور محب کی خوبیوں کے مالک نکلیں ہیں اس لیے کہ یہ خط لکھتے ہیں جبکہ خط تو عاشق اپنے محبوب کو لکھ کر کبوتر کے ذریعے بھیجا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ججز کیس سنتے تھے بولتے نہیں تھے صرف آڈر لکھتے تھے۔ مگر آج کے ججز کچھ تقریر کر کے اور کچھ خط لکھ کر شکایات کر رہے ہوتے ہیں۔جن سے موجودہ دور کے ججز کو شکایت ہے وہ بھی انہی کی طرح سرکاری ملازم ہیں قومی خزانے سے منسلک ہیں البتہ دونوں کی نوکریاں کرنے کا انداز مختلف ہے۔ ججز کا کام کورٹ میں مقدمہ سننے کے بعد فیصلہ لکھ دینا ہوتا ہے۔ ان کے فیصلوں سے انسان پھانسی لگ جاتے ہیں۔ جیسے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سزا ہوئی تھی۔ ججز نے قانون کے تحت نہیں کسی کیحکم پر پھانسی دی تھی۔اس پھانسی کو جوڈیشل مرڈر کانام دیا گیا ہے۔ اب صدارتی ریفرنس نے سچ ثابت کردیا ہے کہ بھٹو کا جوڈیشل مرڈر ہوا تھا۔ ایسے فیصلہ کرنے سے ججز پھر بھی باز نہ آئے وزیر اعظموں کو گھر بھیجتے رہے۔ جتنے غلط فیصلے ہماری جوڈیشری نے کئے شائد ہی دنیا کی کسی عدالت کے ججز نے اتنے غلط فیصلے کئے ہونگے۔ اب ان کے غلط فیصلوں پر کتابوں کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ ہماری جوڈیشری کا نمبر کارکردگی کے حوالے سے دنیا میں126 نمبر تھا اب مزید کم ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے اس سے سب واقف ہیں کہ ججز اور سیکورٹی ایجنسیوں کا جھولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب جج بنائے جاتے ہیں تو ان ایجنسیوں کی رضامندی شامل ہوتی ہے۔ یہ ادارے بھی سرکاری ادارے ہیں ان میں کام کرنے والے اسی کام کی تنخواہ لیتے ہیں۔ یہ دونوں ملکر ایک دوسرے کے کام کرتے ہیں۔ سب سمجھتے ہیں لہذا سب چپ ہیں۔ جسٹس صدیقی کے بعد اب یہ نیا سلسلہ خطوط لکھنے اور اب پوڈر ڈالنے کا شروع ہے۔لکھا ہے ان حالات میں ہم کام نہیں کر سکتے۔ججز نے خط لکھنے کا راستہ کیوں اپنایا ہے یہ سمجھ سے باہر ہیجب کہ ججز کے پاس لکھنے کی طاقت ہے۔ آپ کے لکھنے سے تو ملزم پھانسی پر چڑھ جاتا ہے۔ ججز توہینِ عدالت میں جیل بھیج سکتا ہے۔ مگر کمال ہے اج کے ججز ان افراد کے دباؤ ڈالنے پر مرضی کے فیصلے لکھوانے پر یہ ججز انہیں سزا دینے سے کیوں قاصر ہیں۔ جو کیمرے لگاتا ہے جو رشتہ داروں کو قید کرتا ہے جو ٹاچرکرتا ہے۔ جو فیصلے اپنی مرضی کے نہیں کرنے دیتا۔یہ ججز اپنے قلم سے سزا ایسے لوگوں کو کیوں نہیں دیتے،کئی یہ وہ سرکاری ملازم تو نہیں جنھوں نے آپ کو جج بنانے میں آپ کی مدد کی ہو سفارش کی ہو۔ اپ کے دوست اور بعیدوں ہوں۔ جس طرح بعض ہم حج کے موقع پر شیطان کو مجبوری کے تحت کنکریاں مارتے ہیں اس لیے کہ شیطان ان کو پیسے بنانے کے طریقے بتاتا ہے، رشوت لینی سکھاتا ہے۔اس سے پہلے یہ عازمین شیطان کے پکے دوست ساتھی ہوا کرتی تھے۔ حج پر ہم شیطان سے چھٹکارا پانے کیلئے دل سے انہیں کنکریاں نہیں مارتے دکھاوے کے لیے مارتے ہیں۔ نہیں چاہتے کہ شیطان سے رشتہ ختم ہو۔ یہاں بھی کچھ لوگ ایسا ہی ہیں۔یہ ججز نہیں چاہتے کہ ایسے ملازمین کو سزائیں ہوں۔ میرے نزدیک ججز نے خط لکھ کر اچھا کیا ہے۔ میرے پچھلے کالم پر ایک میرے ساتھی بھائی نے تبصرہ کچھ یوں کیا ہے۔ حالات کے مطابق خط بہت اھم اور وقت کی ضرورت تھا۔خط کا پہلا مقصد میرے نزدیک پورا ھو گیا ہے کہ سیاست تجارت اور عدالتی امور میں اداروں کی مداخلت مداخلت کاروں کی ضد کہ مداخلت ختم نہیں کرنی پر* مکالمہ* شروع ھو چکا ھے جو اس خط کی پہلی کامیابی ھے۔جو باتیں پہلے اشاروں میں اور چند وکیل یا چند سیاست دان سرگوشیوں میں کیا کرتے تھے وہ اب کھلے عام چوکوں چوراں میں ھونے لگی ھیں۔لگتا پاکستان کچھوے کی رفتار سے ھی سہی ترقی کی طرف ارتقائی مراحل میں داخل ھوا چاھتا ھے۔جو بحث اور ایشوز ستر سال پہلے مکالمہ ھوکر ختم ھو جانے چاھیے تھے وہ اب زیر بحث اتھے ھیں۔ھم کتنے پیچھے ھیں۔چلو دیر اید درست اید۔مداخلت کاروں نے ابھی تک مداخلت سے انکار نہیں کیا۔سوال یہ بھی ھے کہ کیوں۔؟ اس کا جواب جناب والا بابا کرموں دے چکا ہے وہ کہتا ہے کہ اگر ججز نوکری پیشہ ہیں تو یہ ادارے والے بھی تو نوکری پیشہ ہیں۔ اس وقت لگتا یہی ہے ادارے والے اپنے کام کی تنخواہ ہلال کر کے کھا رہے ہیں۔جو انہیں کام سونپا جاتا ہے وہ کررہے ہیں۔جو دوسروں کی شکایتیں کرتے ہیں۔ یہ اپنا کام کرتے نہیں جیسے ہمارا کام ان کے کرتوتوں کے ثبوتوں کے لیے کیمرے سے وڈیو بنانا ہے۔ ان کو ڈرانے کیلیے پٹاخے چلانا ہے۔تانکہ یہ ڈرے رہیں جو ہم کہتے ہیں وہ یہ کرتے رہیں۔ ہمیں انہیں اور ملک کو چلانا ہے۔ یہ خوف نفرت نہ پھیلائیں ایسا ہی نظام چلنے دیں۔ یہ اپنا کام کریں ہم اپنا کام کریں گے۔ اللہ اللہ خیر صلی۔ بطور مسلمان نہ سہی انسان کے ہی بتائیں کہ جو ہمارے عام آدمی کے کرتوت ہیں کیا وہ انسانوں والے ہیں۔ کیمیکل ملا دودھ ہم فروخت کرتیہیں۔ اسی طرح مردہ مرغیاں، گدھے اور کتے کا گوشت ہم کھلاتے ہیں۔ جعلی ادویات ہم بناتے ہیں، کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ ہم کرتے ہیں۔ راشن فوٹو بنا کر تقسیم ہم کرتے ہیں۔ جب کہ کہا جاتا ہے۔ ہم دیوالیہ ہونے نہیں جا رہے بلکہ ہم حلال حرام، اخلاقیات، انصاف انسانیت میں دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ کہا جاتاہے مشکل فیصلہ غریب کی سوکھی روٹی کو آدھا کرنا نہیں بلکہ امیر کے پراٹھے پر لگے گھی کی مقدار کو کم کرنا ہے۔ اس ملک کو اگر ٹھیک کرنا ہے اللہ کے کیمروں سے ڈرنا ہے۔ 
 اٹھ شاہ حسیناں ویکھ لے
ساڈے بیڈ روماں دا حال
ہر پاسے لگے کیمرے
بے شرمی پائے دھمال
ساڈے جج نمانے کوکدے
تے کردے پئے فریاد
سانوں تنَ بچانے پے گئے
اساں کی دینا انصاف

ای پیپر دی نیشن