کیا ایم کیو ایم واقعی ختم ہوگئی؟

Apr 08, 2024 | 14:16

   
 
 
کیا ایم کیو ایم واقعی ختم ہوگئی؟
 
 
ایم کیوایم کے پاکستان میں فعال اراکین ہوں، بیرون ملک غیر فعال اراکین یا مصلحت کے تحت کہیں بھی مقیم گوشہ نیشن، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ انکا سیاسی مستقبل کیا ہے؟


کیا واقعی ایم کیوایم کا باب چند ہوچکا یا اب بھی اس میں نئی روح پھونکی جاسکتی ہے؟ یہ بھی کہ اگر ایم کیوایم کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش کربھی لی جائے تویہ چلا ہوا کارتوس کتنا کارآمد ہوگا؟اورسب سے آخر میں یہ کہ 40 برسوں میں تیار ایم کیوایم کا سیاسی سرمایہ بلآخر کس کی جھولی میں جائے گا؟

سلسلہ وار لکھے گئے مضامین کی اس چوتھی قسط کے قارئین بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ انیس سو اٹہتر میں الطاف حسین نے آل پاکستان مہاجراسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بنائی تھی۔وہ سرکاری یعنی پیلے اسکول کے پڑھے، ایک سوبیس گز یعنی تقریباً پانچ مرلے کے مکان میں پلے، عام مگرجوشیلے اورنچلے اورمتوسط طبقے کو اپیل کرنیوالے طالبعلم تھے۔ان کے زیادہ ترساتھی بھی تقریباً اسی طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔

یہ وہ دور تھا کہ جب جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کو تقریباً ایک سال مکمل ہوا تھا۔ بھٹو کو پھانسی دے کر ملکی سیاست سے پیپلزپارٹی کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی تیاری تھی۔ کراچی ملکی سیاست کی نبض تھا اور پیپلزپارٹی کے نزدیک سندھ کے شہری علاقوں میں آباد مہاجروں کے احساس محرومی کا کارڈ اے پی ایم ایس او کی صورت میں استعمال کیا گیا تھا۔

انیس سو چوراسی میں اس طلبہ تنظیم کی کوک سے مہاجرقومی موومنٹ کو جنم دیا گیا تاکہ پیپلزپارٹی کے بقول سندھ کا ووٹ بنک مہاجروں کے نام پر توڑا جاسکے۔انیس سواٹھاسی کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیوایم کو کراچی اور حیدرآباد میں غیرمعمولی کامیابی ملی،اٹھاسی اورانیس سونوے میں دونوں شہروں سے قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں فتح ملی توایم کیوایم حکومت سازی میں فیصلہ کن کردارکی حامل ہوگئی۔

یہ مضمون ایم کیوایم کی تاریخ پرجامع نظرنہیں۔ اسکا مقصد ماضی اورحال میں تحریک کی سیاسی حیثیت مختصراً دیکھتے ہوئے مستقبل پر نظر ڈالنا ہے۔ اسلئے صرف قومی اورصوبائی اسمبلی کی سطح پرایم کیوایم کی سیاسی کارکردگی کو بنیاد بنایا جارہا ہے۔

سابقہ نتائج سب کے سامنے ہیں چنانچہ توجہ حالیہ الیکشن پر مرکوز کرتے ہیں۔ ایم کیوایم کے گڑھ تصور کیے جانیوالے کراچی میں قومی اسمبلی کی 22 نشستوں پر 575 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا جبکہ صوبائی اسمبلی کی 47 نشستوں پر1،406امیدوار مد مقابل تھے۔ شہر کی چار بڑی سیاسی جماعتیں ایم کیوایم پاکستان،آزاد یعنی پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی تھیں۔ دیگر میں تحریک لیبک شامل تھی۔

انتخابی نتائج نے سیاسی جماعتوں کے منتخب افراد کو فارم 45 اور فارم 47 کی پیداوار میں تقسیم کیا۔ یعنی ایک وہ ہیں جو پولنگ اسٹیشن سے جاری نتیجے میں ہارے مگر بیلٹ باکس سیل ہونے کے بعد سے نتیجہ جاری ہونے تک مسلسل یا اچانک ہوئی کرامات کے سبب الیکشن کمیشن سے کامیاب قرار پائے۔

کراچی میں پیپلزپارٹی کو قومی اسمبلی کی سات اور ایم کیوایم کو پندرہ نشستوں پر کامیابی ملی۔قومی اور صوبائی اسمبلی کی جیتی گئی نشستوں کو ایم کیوایم پاکستان کے فعال رہنما 'مینڈیٹ' سے تعبیر کرتےہیں۔تاہم فارم 45 کو بنیاد بنا کر متحدہ قومی موومنٹ کی حریف خصوصاً پی ٹی آئی اسے اپنے حق پر ڈاکہ تصور کرتی ہے۔

فارم 47 ہی پرنظر ڈالیں تو کراچی کے حلقہ دو سو انتیس این اے ملیر ون میں ایم کیوایم کی امیدوار فوزیہ حمید کو ایک سو اڑتالیس ووٹ ملے، پیپلزپارٹی کے عبدالکریم پچپن ہزارسات سوبتیس ووٹ لے کرکامیاب ہوئے، مسلم لیگ ن کے قادر بخش کو اکیس ہزار آٹھ سو اکتالیس، اور آزاد امیدوار ولی محمد کو چودہ ہزار ایک سو اکتیس ووٹ ملے۔ یاد رہے ایم کیوایم کے مطابق نتائج انکا مینڈیٹ ہیں۔ چلیں یہ توملیرون تھا۔

کراچی ہی کے حلقہ دوسوتیس این اے ملیرٹو اور این اے دوسو اکتیس این اے ملیر تھری میں ایم کیوایم نے امیدوار کھڑے ہی نہیں کیے۔یہ بھی مینڈیٹ ہی کا احترام ہوگا کہ اس حلقے کے ساتھی چُھٹی کا دن گھر پرگزاریں یا کوئی اور کام کریں۔

اب زرا ایم کیوایم کے گڑھ میں ڈالے گئے ووٹوں پر نظر لیکن پہلے یہ کہ تین گروہوں میں بٹی ایم کیوایم کی موجودہ شکل کو منی پی ڈی ایم کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ خالدمقبول صدیقی،فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال گروپ کےدرمیان اس قدر اختلافات ہیں کہ شاید اب اتنے ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں بھی نہ رہے ہوں۔ایک رہنما کے مطابق اس گاڑی کاپیٹرول ختم اورانجن جام ہوچکا،اب یہ اپنے اینرشیا پرچل رہی ہے۔چڑھائی آئی توریورس ہونا شروع ہوجائےگی۔

فاروق ستار غربی ون میں تقریباً بیس ہزار ووٹ لے کر پہلے نمبر پرآئے۔دوسرے نمبر پرآئے آزادا امیدوار آفتاب جہانگیر کوتقریباً چودہ ہزار ووٹ ملے۔مصطفی کمال کیماڑی ون میں تقریباً اکہتر ہزارووٹ لے کرجیتے، انکے حریف آزاد امیدوار کو تریپن ہزار ووٹ ملے۔ خالد مقبول صدیقی ایم کیوایم کے گڑھ ضلع وسطی ٹو سے الیکشن لڑے،تقریباً ایک لاکھ تین ہزار ووٹ ملے، انکے حریف آزاد امیدوار ارسلان خالد کوتقریبا چھیاسی ہزار ووٹ ملے۔ضلع وسطی ہی سے احمد سلیم صدیقی جیتے ہوں، خواجہ اظہار یا فرحان چشتی،ان سب کے حلقوں میں دوسرے نمبر پر جوآیا وہ آزاد امیدوار ہی تھا۔

یہ پنجاب کے جاگیردار، سندھ کے وڈیرے، بلوچستان کے سردار یا خیبرپختونخوا کے خان کے حلقے نہیں کہ آزاد امیدوار اتنے بڑے مارجن کے ساتھ دوسرے نمبر پرآئیں۔یہ کراچی ہے اورحلقے مہاجروں کا وہ گڑھ ہیں جہاں پڑھا لکھا نسبتاً متوسط طبقہ رہتا ہے۔۔پورے کراچی کی بات کریں تو بائیس میں سے پندرہ حلقوں میں آزاد امیدوار دوسرے نمبر پر اور دو حلقوں میں تیسرے نمبر پر رہے۔

یہ سب اس کے باوجود ہے کہ سانحہ 9مئی کے سبب پی ٹی آئی کے رہنما عتاب کا شکار تھے۔اسلئے پارٹی کے نسبتاً غیر مقبول رہنما سامنے آئے، آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا اوراسکی مؤثر انتخابی مہم بھی نہ چلا سکے۔

فارم سنتالیس پر ہی نظر ڈالیں تو یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ترقیاتی کاموں کی بدولت پیپلزپارٹی کا گراف تیزی سے بہتر ہوا ہے۔ اگر چوتھی بڑی طاقت کوئی ابھری ہے تو وہ جماعت اسلامی اور تحریک لبیک کی صورت میں مذہبی جماعتیں ہیں۔

فعال ایم کیوایم کی انتہائی اہم شخصیت نے اس نمایندے کو بتایا کہ پارٹی خودحیران ہے کہ قومی اسمبلی میں اتنی نشستیں ملی کیسے؟ انکے نزدیک ایسا تو بالی ووڈ کی فلموں میں بھی نہیں ہوتا۔

فارم پنتالیس کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیا جائے تو شاید صورتحال اس سے کئی گنا سنگین نظر آئے۔یعنی مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ ایم کیوایم کا مینڈیٹ بری طرح تقسیم ہوچکا۔

ممکن ہے یہی وجہ ہو کہ ایم کیوایم جو اپنے ہیڈکوارٹر پر مرکزی پارٹیوں کےقائدین کو سجدہ ریز کراتی تھی، اسکا اس بار یہ حال ہوا ہےکہ قومی اسمبلی کی پندرہ نشستیں ہونے کے باوجود اسلام آباد اورلاہور میں اسکے رہ نما ہفتوں ڈیرے ڈالے رہے اور نوبت یہ تھی کہ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔

پیپلزپارٹی کے ایک رہنما نے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ایم کیوایم الطاف حسین کی پارٹی تھی اور بائیس اگست کے بعد وہ دم توڑ چکی۔ انیس سو اسی اور نوے کی دہائی میں جو جوان تھے، انکی عمریں آج ساٹھ برس کے قریب ہیں۔یہی وہ طبقہ ہے جو ایم کیوایم کا ووٹ بنک تھا۔اس میں سے زیادہ تر افراد موجودہ قیادت کو بحران کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اور انہیں ووٹ دینے کو تیار نہیں۔

ایم کیوایم کے ایک غیر فعال سینئر رہ نما نے کہا کہ عوام کا بنیادی مسئلہ لاکھ مہنگائی سہی مگروہ جان چکے ہیں کہ کسی سیاسی جماعت کے پاس اسکا حل نہیں۔ بے نظیر کومقبولیت جنرل پرویز مشرف سے ٹکرانے کے سبب ملی تو نوازشریف کو مقبولیت مجھے کیوں نکالا پرحاصل ہوئی، نوازشریف کا مؤقف نرم پڑا تو ووٹ بنک بھی جاتا رہا۔

انہی رہ نما کے بقول ایم کیوایم کے ماضی اورحال پرنظرڈالیں تو بھرم اور دھمکیاں اپنی جگہ، حقیقت ہے کہ یہ جماعت پتلی تماشہ دکھاتی رہی، حد یہ کہ ایک موقع پر عمران خان کو ایم کیوایم کے سینئر رہنما نے منہ پر یہ کہہ کر ہکا بکا کردیا تھا کہ ہم آپ کو ووٹ محبت یا پی ٹی آئی کے فلسفے پرنہیں دے رہے،جو حکم سرکاری وہی پکے گی ترکاری۔اوریہی حکم تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دینے کا باعث بنا تھا۔

وزارت عظمی سنبھالنے کے بعد شہبازشریف نے جب اپنی تقریر میں ایم کیوایم سےاظہارتشکرنہیں کیا تو شاید اسی لیے گیلری میں بیٹھے سینئر ترین رہنماؤں میں سے ایک وسیم اختر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا جنہوں نے اپنے اراکین اسمبلی کو غیرت دلائی اور شہبازشریف کو مخاطب کرتے ہوئے باآواز بلند شکوہ کیا تھا کہ وہ ایم کیوایم سے معاہدے کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟

قومی اسمبلی میں بیٹھے ایم کیوایم کے دھڑوں پر جو بیتی سوبیتی، شہبازشریف نے پہلے پارلیمنٹ لاجز آکر ایم کیوایم کے وفد سے اظہار تشکر کیا اورانکا ساتھ ناگزیر قرار دیا۔ وزیراعظم اگلے ہی روز ایم کیوایم کے بہادر آباد مرکز بھی آئے، تحفظات دورکرنے کی کوشش بھی کی۔

یہ الگ بات کہ آپس کے اختلافات ہی نے وزارتوں اور سندھ کی گورنری کا مسئلہ الجھادیا۔ن لیگ کے ایک رہنما نے انکشاف کیا کہ وزیرعظم نے ایم کیوایم وفد سے کہا تھا کہ اگر آپ کسی اور کو گورنر بنانا چاہیں تو نام دیدیں۔ وفد کی قیادت کرنیوالے ایم کیوایم رہنما نے پہلے نام دینے سے گریز کیا، جب اصرار کیا گیا تو پارٹی کے ایک سینئر رہنما کا نام پیش کیا۔ ن لیگی رہنما ششدر رہ گئے جب ملاقات ختم ہوتے ہی متحدہ وفد کے لیڈر اچانک واپس آئے اور وزیراعظم سے کہا کہ گورنر کیلئے جو نام پیش کیا گیا، اسے رہنے دیں۔

انہی رہنما نے پھر کسی اورکی وکالت شروع کردی۔یہی وجہ ہے کہ کامران ٹیسوری اگر عہدے پر تاحال برقرار رہیں تو وہ اپنے فلاحی اقدامات کی وجہ سے۔ بقول ایک سفارتکار کے گورنرٹیسوری درد دل رکھنے والے انسان ہیں اور ایم کیوایم کے رہنماؤں میں رول ماڈل کے طور پرابھرے ہیں۔

کراچی کی سیاست پرنظر رکھنےوالی ایک شخصیت نے کہا کہ سوشل میڈیا کےدور میں ایم کیوایم کے رہنما اور ووٹر یہ سب کچھ دیکھ کرپی ٹی آئی، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک کا رخ کررہے ہیں۔

ان پچاس سالوں میں کراچی کی آبادی میں مہاجروں کا وہ تناسب بھی نہیں رہا،۔ملکی صورتحال اور لوگوں کو آگاہی کی سطح بھی تبدیل ہوئی ہے۔اسی لیے کوئی نئی پارٹی بھی ابھرے گی تو مہاجرنام یا کوٹہ سسٹم کا پرانا منجن نہیں بکے گا۔

بیرون ملک مقیم غیر فعال رہنما نے تسلیم کیا کہ اب وہ نوبت یہ ہے کہ بانی ایم کیوایم وطن آکر اکھاڑ پچھاڑ بھی کردیں تو بھی وہ ایم کیوایم کا مستقبل تابناک نہیں کرسکتے۔شہر اور وقت ہاتھ سے جا چکا۔

پاکستان میں مقیم غیرفعال رہنما کے نزدیک بیرون ملک مقیم غیرفعال شخصیات وطن آکر فعال ہوں تو سیاسی سرگرمی تو ہوجائے گی، وہ ووٹ بنک کہاں سے لائیں گے؟ کیونکہ ان پلوں کے نیچے بہت پانی بہہ چکا اور لوگ اس ایم کیوایم سے تنگ آچکے جس نے شہر کی روشنیاں لوٹانے کا وعدہ تو کیا تھا مگر اسے اندھیروں میں دھکیل دیا۔

ان رہنما کے بقول وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایم کیوایم کے فعال اور غیرفعال رہنما یا تو سیاست سے کنارہ کش ہوجائیں گے یا ان سیاسی جماعتوں کا رخ کریں گی جن کے خلاف بیانات داغ کراس پارٹی نے جنم لیا، پلی پھولی اور بلآخر زوال پزیر ہوگئی۔

بیرون ملک مقیم ایم کیوایم کے غیر فعال رہنما کے مطابق سیاستدانوں کاہاتھ عوام کی نبض پرہوتا ہے۔اب وہ کامیاب ہوگا جو نوجوانوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرےگا۔انکے بقول عوام بڑی سیاسی جماعتوں سے بدظن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک نئے پلیٹ فارم سے نئے بیانیہ کے ساتھ اچھی ساکھ رکھنے والے تمام پرانے اور سنجیدہ لوگ ایک ساتھ میدان میں آئیں،اور ملک میں موجود گوشہ نشینوں کو فعال کریں تومردہ گھوڑے میں بھی جان ڈالی جاسکتی ہے۔

مزیدخبریں